پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو بلے کا انتخابی نشان ملے گا یا نہیں؟ سپریم کورٹ نے پشاورہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت مکمل کرتے ہوئے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا، جو کچھ دیر میں سنایا جائے گا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات اور بلے کے انتخابی نشان سے متعلق پشاور ہائیکورٹ فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر دوسرے روز سماعت کی جو شام 7 بجے کے بعد بھی جاری رہی جبکہ بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس محمد علی مظہر اورجسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ نے سماعت صبح 10 بجے تک ملتوی کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی الیکشن درست قرارپائے تو انہیں بلے کے انتخابی نشان سمیت سب کچھ ملے گا۔
چیف جسٹس نے اس حوالے سے ریمارکس دیے تھے کہ قانون کے مطابق پہلے قانونی انداز میں پارٹی الیکشن کروائیں،انتحابی نشان بعد کی بات ہے۔سماعت کل صبح 10 بجے تک ملتوی کر رہے ہیں، ہمارا ویک اینڈ برباد کرنے کا شکریہ۔
آج سماعت کے آغاز پر پی ٹی آئی کے وکیل حامد علی خان اورعلی ظفرروسٹرم پرآگئے، علی ظفر نے کہا کہ درخواست میں ایک سے8 تک جوفریقین ہیں ان کی نمائندگی کررہاہوں، میری 5 گزارشات ہیں جن پر اپنے دلائل مرکوز رکھوں گا، الیکشن کمیشن کے پاس اختیار نہیں کہ وہ انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابی نشان الاٹ کرنےکےآخری دن کا ادراک ہے، وکیل تو بس دلائل دے کرنکل جاتے ہیں جبکہ عدالت پر ایک بوجھ فیصلہ لکھنے کا بھی ہے، ہمیں فیصلہ لکھنے کے لیے بھی وقت درکار ہوتا ہے۔
علی ظفر کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 17 دو سیاسی جماعت بنانےکااختیار دیتا ہے، سپریم کورٹ بھی آرٹیکل 17دو کی تفصیلی تشریح کرچکی ہے، ایک انتخابی نشان کےساتھ الیکشن لڑنا سیاسی جماعت کےحقوق میں شامل ہے۔ الیکشن کمیشن نے آرٹیکل 25 کےمطابق پی ٹی آئی سےامتیازی سلوک کیا۔ وہ آرٹیکل 17 دو کی خلاف ورزی کررہاہے۔ الیکشن کمیشن کورٹ آف لاء نہیں جوفیئرٹرائل دے سکے۔ پی ٹی آئی کے کسی ممبر نے انٹرا پارٹی انتخابات کوچیلنج نہیں کیا، اگرانتخابات چیلنج بھی ہوتے تو یہ سول کورٹ کا معاملہ بنتا ہے۔ پی ٹی آئی ایک نجی سیاسی جماعت ہے، الیکشن کمیشن کے پاس از خود نوٹس کا اختیارنہیں۔ بلے کا نشان چھین کربظاہربدنیتی کی گئی ہے۔
علی طفر نے کہا کہ عدالت کے سامنے پی ٹی آئی کےآئین کاخلاصہ بھی رکھوں گا، پی ٹی آئی نے 8 جون2022 کو پہلےانٹرا پارٹی انتخابات کرائے، سپریم کورٹ نےعام انتخابات 8 فروری کو کرانے کا کافیصلہ دیا اورانتخابات کی تاریخ آنے کے بعد 20 دن کا وقت تھا۔ پی ٹی آئی نے 2 دسمبر 2023 کوانٹراپارٹی انتخابات کرائےاور الیکشن کمیشن نے22 دسمبرکوپی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قراردیتے ہوئے انتخابی نشان واپس لے لیا۔پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات میں کوئی بے ضابطگی نہیں کی اور آئین کے مطابق الیکشن کروائے۔ خدشہ تھا پی ٹی آئی کوانتخابات سے باہرنہ کردیا جائے اس لیے20 روزمیں الیکشن کرایا۔ الیکشن کمیشن نےکہا انٹراپارٹی انتخابات ٹھیک تھے مگرسربراہان کی تعیناتی غلط ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگرپی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات درست تھے پھرتوانتخابی نشان بھی مل جائے گا،ہرسیاسی جماعت کے ممبران کو بنیادی حقوق ملنے چاہئیں۔ انہوں نے استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات میں ہرممبرکوالیکشن میں حصہ لینے کا موقع دیا؟اکبرایس بابرکا دعوی ہے کہ وہ پارٹی ممبرہیں اورانہیں الیکشن سے دوررکھا گیا۔
جسٹس محمد علی مظہرنے استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی نے الیکشن ایکٹ کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات کرائے؟ پی ٹی آئی لیول پلیئنگ کی بات کرتی ہے کیا اپنے ممبران کولیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کیا؟پی ٹی آئی نے اپنے آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ اکثرممبران کا شکوہ ہے کہ انتخابات میں حصہ نہیں لینے دیا گیا، کیا کیا پی ٹی آئی نے چیف الیکشن کمشنرسمیت سیکرٹری کا انتخاب اپنے آئین کے مطابق کیا۔
اس پر پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمشین میں انٹرا پارٹی انتخابات کیخلاف 14 درخواستیں دائر ہوئیں، ہمارا بنیادی موقف تھا کہ درخواست گزار پارٹی ممبر نہیں ہیں۔ الیکشن کمیشن نے 32 سوالات بھیجے جن کا تحریری جواب دیا اور الیکشن نے فیصلے میں کسی بے ضابطگی کا ذکرنہیں کیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بنیادی سوال جمہوریت کا ہےپارٹی آئین پرمکمل عملدرآمدکانہیں، کم ازکم اتناتو نظرآئےکہ انتخابات ہوئے ہیں،انتخابات جوبھی ہوں ہرکوئی ان سےخوش نہیں ہوتا۔ اکبرایس بابرنےاگراستعفیٰ دیایا دوسری پارٹی میں گئےوہ بھی دکھا دیں۔ سوشل یامیڈی اپرالیکشن کمیشن پر الزامات عائد کرناکافی نہیں۔ کیا پی ٹی آئی کی حکومت میں الیکشن کمیشن ایک آزاد آئینی ادارہ تھا جواب کسی کے ماتحت ہوگیا؟
وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کو ہم بھی چیلنج نہیں کر رہے،اس نے کارروائی از خود نہیں کی شکایات ملنے پرکی۔ الیکشن کمیشن نے ایسی کسی بے ضابطگی کی نشاندہی نہیں کی۔ تمام سوالات کے جواب دستاویزات کے ساتھ دوں گا۔ انتخابی نشان سیاسی جماعت کا بنیادی حق ہوتا ہے.
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابی نشان کیاہوتا ہےاچھے سے معلوم ہے، پیپلزپارٹی سے ماضی میں تلوارکا نشان لیا گیا، مسلم لیگ نے بھی ایسا ہی وقت دیکھا،اس وقت حکومت میں کون تھا یہ بھی دیکھنا ہے۔ آج پی ٹی آئی کے مخالفین حکومت میں نہیں ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نےانتخابی شیڈول اورمقام پرنشاندہی نہیں کی۔ بنیادی نکتہ الیکشن کمیشن کا اختیارہے،اگروہ ہی نہ ہواتوباقی چیزیں خود ختم ہوجائیں گی۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ بنیادی بات یہ ہےکہ پارٹی میں الیکشن ہوا ہے یا نہیں،اکبرایس بابرکوالیکشن لڑنے دیتے سپورٹ نہ ہوتی توہارجاتے۔ پی ٹی آئی کےبانی جیل میں ٹرائل کاسامنا کررہے ہیں، اگر کل وہ باہرآکرکہہ دیں کہ یہ عہدیدارکون ہیں تو کیا ہو گا؟ پی ٹی آئی کواپنے ساڑھے8لاکھ ممبران پراعتماد کیوں نہیں ہے؟
پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ جن ضابطگیوں کی بنیادپرنشان واپس لیااس کی نشاندہی کررہاہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انتخابات باقاعدہ طریقہ کارسےکروائےہیں توانتخابی نشان ملناچاہئیے، انتخابات کی پیچیدگیوں میں نہجائیں۔ انٹراپارٹی انتخابات میں اراکین کویکساں موقع ملا یا نہیں؟ کاغذکاٹکرا دکھا کریہ نہیں کہا جاسکتا لو انتخابات کروا دیے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن مروجہ طریقہ کارسےہوئے یانہیں۔ الیکشن کمیشن کامؤقف ہےپی ٹی آئی نےانٹراپارٹی الیکشن کرائےنہیں،14 افراد کوانٹراپارٹی انتخابات میں شرکت سےکیوں روکا۔
اس پر علی ظفر نے جواب دیا کہ جن افراد کوشکایت تھی وہ سول کورٹ جاتے،وہاں جانےسے انتخابی نشان پرکوئی اثرنہیں ہوگا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کچھ دیرکیلئے انتخابی نشان کی بات چھوڑدیں،کیا پی ٹی آئی جمہوریت چاہتی ہے یا نہیں، پی ٹی آئی جمہوریت کےبجائےصرف سیاست کی بات کررہی ہے۔ الیکشن کمیشن کاایک ہی دکھڑا ہے کہ پی ٹی آئی پارٹی انتخابات کروا لے۔
علی ظفر بولے کہ پارٹی الیکشن کرائے لیکن وہ الیکشن کمیشن نےمانےنہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ، ’ہم جمہوریت کیساتھ کھڑے ہیں چاہےوہ گھرکےاندرہویاباہر‘ ، پی ٹی آئی وکیل بولے کہ کوئی پٹواری انٹراپارٹی انتخابات کا فیصلہ نہیں کرسکتا ، اسےاختیارنہیں ہے۔ جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی آئی خود اپنے آئین کی خلاف ورزی کررہی ہے۔ آپ کہتےہیں انٹراپارٹی الیکشن نہ کروانے پر الیکشن کمیشن2 لاکھ جرمانہ کرسکتاہے لیکن ساتھ ہی آپ کہتےہیں باقی اختیارالیکشن کمیشن کےپاس نہیں۔
چیف جسٹس کاعلی ظفرسےمکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کب پی ٹی آئی میں شمولیت اختیارکی؟ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ ، ’یاد نہیں ، 2سال قبل پی ٹی آئی میں شامل ہوا‘۔ چیف جسٹس نے مزید پوچھا کہ گوہرعلی خان پہلے کس جماعت میں تھے۔ جواب میں بیرسٹرگوہیر بولے کہ ’میں پہلے پیپلزپارٹی کا حصہ تھا،‘۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہی برداشت ہوتی ہے، دوسروں کوجماعت میں برداشت کرناچاہئیے۔ پارٹی سربراہان کےخلاف کوئی الیکشن لڑنےکی ہمت نہیں کرتا۔ چھوٹے عہدوں پرتولڑائی ہوتی ہی ہے۔ علی طفر نے کہا کہ بلامقابلہ انتخابات تو پورے ملک میں بھی ہوجاتےہیں۔ جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں انتخابات جبری طورپربھی ہوتےرہےہیں، قومی اسمبلی کی نشستوں پربلامقابلہ انتخابات ہوئےتوتسلیم نہیں کروں گا۔
عدالت نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی سے متعلق استفسار کیا کہ، ’ چمکنی میں لوگ کس لیے جمع ہوئے تھےجب انتخاب بلامقابلہ ہونا تھا تو؟ ، اس پرعلی ظفرنے کہا کہ بانی پی ٹی آئی اگرانٹرا پارٹی انتخابات میں اپنا پینل دیں توکوئی مخالفت نہیں کرے گا، اگرکوئی انتخاب لڑے ہی نہ پھربھی الیکشن درست ہوں گے۔ اکبرایس بابرکو2018 میں پارٹی سےنکال دیا گیا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اکبر ایس بابرکی برطرفی کی دستاویزدیں ورنہ انہیں پارٹی ممبر تسلیم کریں گے۔ پی ٹی آئی کوئی تو کاغذ کا ٹکڑا دکھائے۔ جسٹس مسرت ہلالی نےریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی نےانٹرا پارٹی انتخابات اتنے خفیہ کیوں رکھے،انتخابات آزادانہ ہونے چاہئیں تاکہ ورکرزمضبوط ہوں۔
چیف جسسٹس نے استفسار کیا کہ ، ’ کیا پی ٹی آئی کی ویب سائٹ پرکاغذات نامزدگی پڑے ہیں؟ انصاف ڈاٹ پی کےپرتوکوئی کاغذات نامزدگی نہیں پڑےہوئے۔ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پرتمام معلومات موجودہوتی ہیں۔’ جواب میں علی ظفربولے کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کیلئے کاغذات نامزدگی ویب سائٹ سےہٹادیےہیں، مرکزی دفاترسے کاغذات نامزدگی مل رہے تھے۔ اس منطق پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے، ’ کیا پشاور سےکوئی انٹرا پارٹی انتخابات لڑنا چاہےتوفارم لینے وہ اسلام آباد آئے گا،صرف کہنےسےتوبنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہو جاتی، آمریت کا آغازگھرسے ہوتا ہے۔ کسی بڑےکی ناجائزبات سنی جائےتو باہر سے جمہوریت اندر آمریت ہونےلگتی ہے،سب کچھ چھوڑیں صرف یہ بتا دیں کہ الیکشن ہوا یانہیں؟
دوسروں سے رسیدیں مانگتے ہیں خود تو دکھائیں— جسٹس مسرت ہلالی
علی ظفرنے کہا کہ، ’کاغذات نامزدگی کے ساتھ 50 ہزارروپے فیس بھی تھی‘ ، جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ 50ہزار کس بینک میں گئے وہ دکھا دیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے بھی کہا کہ، ’ 50 ہزارفیس کی کوئی رسید ہوگی ،دوسروں سے رسیدیں مانگتے ہیں خود تو دکھائیں۔’
چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کا سرٹیفکیٹ دکھادے بات ختم، پی ٹی آئی2018 سےانٹرا پارٹی انتخابات سےکیوں گھبرارہی ہے؟ ، الیکشن کمیشن کب سےپوچھ رہاتھاانتخابات کرائیں،پی ٹی آئی تاخیرکرتی رہی۔ پی ٹی آئی تو کاغذات نامزدگی کی فیس کا بھی کوئی کاغذنہیں دکھارہی۔ ہم نےاس کیس کےجلد فیصلے کے لیے پی ٹی آئی وکلاء کوسنا، اگر چیفپی ٹی آئی وکلاء کو نہ سنتے تو پشاورہائیکورٹ کافیصلہ کل ہی معطل کردیتے۔
چیف جسٹس نے پی ٹی آئی وکیل پر واضح کیا کہ، ’ جواب نہیں دیں گےتو پشاورہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرناہوگا۔’
عدالت نے ریمارکس دہے کہ جوشیڈول پی ٹی آئی نےدیاہے وہ عملی طورپر ممکن نہیں لگ رہا۔ جسٹس علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ مرضی سے فیصلے کرنے ہیں تو میں تسلیم نہیں کرسکتا، سب سیاسی جماعتوں کیساتھ یکساں سلوک ہوناچاہئیے۔
علی ظفر نے کہا کہ پارٹی الیکشن شیڈول پراعتراض کاجواب دوں گا جس پرچیف جسٹس نے واضح کیا کہ , ’جج صاحب نے اعتراض نہیں کیا سوال کیا ہے‘۔ علی طفر نے کہا کہ پارٹی انتخابات کا شیڈول پارٹی کااندرونی معاملہ ہے۔
جسٹس علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ، ’پی ٹی آئی کے اپنےممبران کوہی لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ملی‘۔
چیف جسٹس کی جانب سے نیاز اللہ نیازی کی پی ٹی آئی میں شمولیت سے متعلق استفسار پرعلی ظفر نے جواب دیا کہ وہ 2009 سے شامل ہوئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نئےچہرےآئیں توسیاسی جماعت پرسیاسی قبضہ بھی تصور ہوسکتا ہے، پرانےلوگوں کی الگ بات ہے، نئےلوگ جماعت میں آئیں توشکوک پیدا ہوتےہیں۔
علی ظفرنے کہا کہ قانون کے مطابق انٹراپارٹی انتخابات کا سرٹیفکیٹ دینا لازمی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بنیادی بات سرٹیفکیٹ نہیں الیکشن ہونا ہیں،سرٹیفکیٹ نہ ہونا مسئلہ نہیں الیکشن نہ ہونا مسئلہ ہے اور سرٹیفکیٹ تو الیکشن کے بغیر بھی آسکتا ہے۔ اگرپی ٹی آئی کو زیادہ وقت چاہئیےتو پہلےکہاتھا فیصلہ معطل کرناپڑےگا، عدالت کوجوتشویش ہے پہلے اسے دورکریں، پھر گلہ نہ کیجیئےگا کہ فیصلہ کیوں معطل کیا۔
کارروائی کے دوران پی ٹی آئی کے چیف الیکشن کمشنر نیاز اللہ نیازی کی چیف جسٹس سے تلخی کلامی ہوئی۔ چیف جسٹس نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیا طریقہ ہے بات کرنے کا، نیازاللہ نیازی کونوٹس کرتا ہوں وہ میری عدالت میں کبھی پیش نہیں ہوسکیں گے۔ انہوں نے پی ٹی آئی وکیل علی ظفر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، ’ علی ظفریہ پی ٹی آئی وکیلوں کابات کرنےکاطریقہ ہے’۔
چیف جسٹس نے نیاز اللہ نیازی کو بات کرنےسے روک دیا۔
نیازاللہ نیازی نے کہا کہ بیٹے کے لاء انٹرویومیں بھی پی ٹی آئی کےسوالات پوچھےتھے،آپ میری تذلیل کررہے ہیں۔
اس پر چیف جسٹس بولے کہ مجھے علم ہی نہیں کہ نیازاللہ نیازی کا کوئی بیٹا بھی ہے، اگر ایسے کرنا ہے تو ہم اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔ کیا ہم نیاز اللہ جیسوں کونوٹس جاری کریں؟
اس پرعلی ظفر نے عدالت سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ، ’ایسا نہیں ہونا چاہیئے تھا۔‘
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ، ’لگتا ہے پی ٹی آئی دستاویزات میں کافی کمزورہے،جوبھی دستاویزات مانگتے ہیں وہ آپ کے پاس نہیں ہوتیں‘ ، جواب میں علی ظفر نے کہا کہ کچھ دیر تک تمام دستاویزات مل جاتی ہیں۔
عدالت نے کیس کی سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کردیا۔
وقفے کے بعد سماعت کے دوبارہ آغاز پر چیف جسٹس کے استفسار پر پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ وہ ایک گھنٹے میں دلائل مکمل کرلوں گا۔
اس دوران جسٹس مسرت ہلالی کی جانب سے استفسارکیا گیا کہ کیاپی ٹی آئی کا پشاورمیں کوئی دفترہے؟ جواب میں علی ظفر نے کہا کہ ہماراچمکنی میں آفس ہے۔ ہم نےالیکشن کمیشن سےانٹراپارٹی الیکشن کیلئے سیکیورٹی مانگی اور الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے آئی جی خیبرپختونخواہ کو خط لکھا۔
علی ظفر نے کہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کے لیے جو پینل سامنے آئے ان کی تفصیلات بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ اکبر ایس بابر جب آئے تو وقت ختم ہوچکا تھا، انہوں نے آج تک اپنا پینل ہی نہیں دیا کہ وہ کہاں سے الیکشن لڑنا چاہتے تھے، وہ الیکشن لڑنا چاہتے تو ہمیں اعتراض نہ ہوتا۔
چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ پارٹی آئین میں کہاں لکھا ہے کہ الیکشن اکیلا شخص نہیں لڑ سکتا۔’ اس پر علی ظفر نے کہا کہ پارٹی آئین میں پینل انتخابات کا ذکر ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پارٹی آئین کے مطابق چیئرمین کا انتخاب ووٹ کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے۔ اس پرعلی ظفر نے کہا کہ کوئی مدمقابل نہ ہو تو انتخاب بلا مقابلہ تصورہو گا۔ چیف جسٹس نے جواب میں ریمارکس دیے کہ’پارٹی آئین میں کہیں بلامقابلہ انتخاب کا نہیں لکھا۔
آس پر علی ظفر کا کہنا تھا کہ ووٹنگ ہوتی ہی تب ہے جب ایک سے زیادہ امیدوار ہوں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر چیئرمین کے واحد امیدوار کو ہی لوگ پسند نہ کرتے ہوں تو کیا ہو گا۔ اس طرح آپ آمریت کی جانب جارہے ہیں۔ اگر ایک ووٹ بھی نہ ملے تو سینیٹر بھی منتخب نہیں ہوسکتا۔
جواب میں علی ظفر نے کہا کہ میں بلامقابلہ سینیٹر منتخب ہوا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ چیئرمین، سیکریٹری جنرل سمیت سب لوگ ایسے ہی آگئے تو یہ تو سلیکشن ہو گئی۔ پی ٹی آئی نے الیکشن کیوں نہیں کروایا؟ آخر مسئلہ کیا تھا۔
علی ظفرنے مسلم لیگ ن کے بلامقابلہ انتخابات کا نوٹیفکیشن پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کے انتخابات میں بھی بلا مقابلہ انتخابات ہوئے تھے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بلامقابلہ انتخابات پارٹیوں میں ہوتے رہتے ہیں، اس پر تبصرہ نہیں کریں گے۔
علی ظفرنے کہا کہ اے این پی کے ضلعی صدور بھی بلامقابلہ منتخب ہوئے تھے مگرانہیں آج جرمانہ کر کے پارٹی انتخابات جنرل الیکشن کے بعد کرانے کا کہا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ’معاملہ فنڈنگ کا بھی 2014 سے پڑا ہےجو آپ چلنے نہیں دیتے، عوام کو پتہ ہونا چاہیئے کہ ملک چلانے والے کون ہوتے ہیں۔ پی ٹی آئی انتخابات میں کسی نے ووٹ نہیں ڈالا۔
علی ظفر نے کہا کہ مد مقابل کوئی نہیں تھا اس لیے ووٹنگ نہیں ہوئی تھی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دہے کہ کورونا کے دوران بھی انتخابات ہوسکتے تھے اگر کوئی پینل نہ سامنے آتا تو ایسے ہی بلامقابلہ الیکشن ہوجاتے۔
علی ظفر نے جواب دیا کہ ماضی واپس کیا جاسکتا تو ضرور کرتے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے 2021 میں انتخابی نشان واپس لینے کا خط لکھا تھا پرانے لوگوں کو ساتھ رکھیں تو انہیں تجربہ ہوتا ہے۔ اکبر ایس بابر کی دستاویزات کے مطابق پی ٹی آئی کے 12 بانی ارکان تھے۔ پی ٹی آئی نے شاید بعد میں آئین بدل لیا۔ ہ تو ثابت ہوگیا کہ اکبر ایس بابر پی ٹی آئی کے بانی ممبر تھے، ان کو پارٹی سے نکالنے کی دستاویزات دکھا دیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی پرکوئی باہر سے تو نہیں حملہ کررہا ناں۔۔ انہوں نےاستفسار کیا کہ یہ یہ بلامقابلہ انتخاب کیسے ہوا؟ چیئرمین بننے کا حق حامد خان کا زیادہ ہے یا بیرسٹر گوہر کا؟
اس پر علی ظفر نے جواب دیا کہ ن لیگ میں مریم نواز سمیت سب بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔ جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ بڑے عہدوں پرلوگ بلامقابلہ منتخب ہوجاتے ہیں۔
علی ظفر نے کہا کہ اے این پی کے ضلعی صدور بھی بلا مقابلہ منتخب ہوئے،
چیف جسٹس نے کہا کہ آپکا معاملہ پرانا ہے، مقابلے میں کوئی نہیں تھا پھر بھی ووٹنگ کیوں نہ ہوئی؟۔ اس پر پی ٹی آئی وکیل نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کے پاس پارٹی انتخابات کے جائزے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کو فنڈنگ کا جائزہ لینے کا بھی اختیارنہیں؟ اس پر علی ظفر نے کہا کہ وہ معاملہ مختلف ہے، الیکشن کمیشن اس کی سکروٹنی کرسکتا ہے۔یہ اختیار آئین نہیں قانون میں دیا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس نکتے پر آپ کیوں نہیں کہتے کہ سول کورٹ کا اختیار ہے۔ فنڈنگ کے ذرائع کے حوالے سے الیکشن ایکٹ بالکل واضح ہے۔
اسی دوران پی ٹی آئی کے موجودہ چیئرمین بیرسٹر گوہر نے عدالت کو بتایا کہ خبرآئی ہے میرے گھر میں4 ڈالے آئے، بیٹے اور بھتیجے پر تشدد کیا گیا اور سارے کاغذات لے کر چلے گئے۔ یہ بتاکر بیرسٹر گوہرسپریم کورٹ سے روانہ ہوگئے۔
بیرسٹر گوہرکا کہنا تھا کہ مزید دلائل نہیں دے سکتا، مجھے جانا ہوگا۔
چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا کہ، ’ایسا کچھ نہیں ہونا چاہیئے تھا، اگر ایسا ہوا ہے تو اس معاملے کو دیکھیں۔‘
سماعت میں چیف جسٹس نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی یہ تو نہیں کہہ سکتی کہ انٹرا پارٹی انتخابات کرائیں یا نہ ہماری مرضی۔ علی ظفر نے کہا کہ انتخابی نشان کسی بھی جماعت کا بنیادی حق ہے،ٓ۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ، ’لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں ووٹنگ نہیں ہوئی، پی ٹی آئی پرکچھ لوگوں نےقبضہ کرلیا‘۔
علی ظفر نے کہا کہ آپ نے خود فیصلہ دیا ہے کہ کسی کے انتخابات لڑنے کے حق کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ چیف جسٹس کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق کیس میں یہ فیصلہ دیا گیا ہے۔
اسی دوران بیرسٹر گوہر نے واپس آ کرسپریم کورٹ کو بتایا کہ اننیں کسی پراعتماد نہیں، اپنے گھر پرحملے کی تفصیلات عدالت کو بتانا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نسے مخاطب ہوتے ہوئے انہوں نے کہا، ’سر میرے گھر چار ڈالے گئے ہیں حالات خراب ہیں۔‘۔
جب بیرسٹر گوہرعدالت واپس پہنچے تو چیف جسٹس نے استفسار یا ، ’گوہر صاحب کیا پوزیشن ہے؟‘ اس پر انہوں نے جواب دیا ’حالات بہت سنگین ہیں۔‘
چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایات دیں کہ ابھی معاملے کو طے کریں، جنہوں نے عدالت سے کہا کہ سیکریٹری داخلہ اور آئی جی علوم کر رہے ہیں کہ کیا ہوا ہے۔ اسی دوران چیف جسٹس نے بیرسٹر گوہر کو بات کرنے سے روکتے ہوئے کہا کہ پہلے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو بتائیں اگر بات نہ سنی جائے تو عدالت کو آگاہ کریں ۔ انہوں نے بیرسٹر گوہر سے کہا، ’پلیز یہاں بات نہ کریں ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو کہہ دیا ہے وہ معاملہ دیکھ رہے ہیں۔‘
بیرسٹر گوہرنے اس ہپر کہا کہ، ’اب حد سے بھی تجاوز ہوگیا ہے۔ کسی پراعتماد نہیں۔عدالت کو بتانا چاہتا ہوں کہ کیا ہوا اس پرچیف جسٹس بولے ، ’ہم ایس ایچ او تو نہیں ہیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن بار بار کہہ رہا تھا الیکشن کرا لو، یہ نہیں ہو سکتا کہ الیکشن نہ ہو اور انتخابی نشان بھی مل جائے، جس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کروایا لیکن وہ مانتے ہی نہیں،
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس وقت معاملہ حالیہ انتخابات کا ہے پرانا نہیں، جس پر وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ انتخابی نشان پی ٹی آئی کا بنیادی حق ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن ہوجائے تو سرٹیفکیٹ اور انتخابی نشان بعد کی باتیں ہیں، جس پر پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ گزشتہ دس سالوں کی تقرریوں کا جائزہ لے، ورچوئلی میری جماعت کو تحلیل کر دیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جب ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کو ہٹایا گیا اس وقت تو یہ بات نہیں کی گئی، جس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ یہ تاریخ کا پس منظر ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب طاقتور ہوتے ہیں تو ایسی چیزوں کا خیال رکھتے ہیں، تحریک انصاف نے تو خود پر خودکش حملہ کردیا، فیض آباد دھرنا فیصلے میں الیکشن کمیشن نے کہا قانون مصنوعی ہے، دھرنا نظرثانی درخواستیں واپس لے لی گئیں، پہلے بھی پی ٹی آئی نے اسمبلی تحلیل کر دی، اس وقت اسمبلیاں تحلیل کرکے آئین کی خلاف ورزی کی گئی، یہ جمہوریت ہے کوئی جیتتا ہے کوئی ہارتا ہے، اصول قائم رہتے ہیں، وجیہہ الدین صاحب اچھے آدمی تھے آپ نے انھیں ہٹا دیا۔
دوران سماعت سابق وزیراعظم نوازشریف کو پارٹی صدارت سے ہٹانے کے کیس کا تذکرہ بھی ہوا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جب آپ اقتدارمیں ہوتے ہیں توتب اصول کیوں نظراندازکردئیے جاتے ہیں، ہم یہ باتیں کرنا نہیں چاہتے تھے، 2018 میں ایک پارٹی صدارت کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے ختم کردیا گیا، کچھ لوگ اس فیصلے کا شکار ہوئے، اس فیصلے کے نتیجے میں پی ٹی آئی نے وہ مطلوبہ نتائج حاصل کیے جوانکو میسرنہیں تھے، علی ظفر صاحب آپ اس ایوان کے رکن ہیں آپ سمجھ گئے ہوں گے، پی ٹی آئی بار بار لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات کرتی ہے، کسی جماعت کو لیول پلیئنگ فیلڈ کے نام پر ترجیح نہیں دی جا سکتی۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ گزشتہ دس سالوں کی تقرریوں کا جائزہ لے، ورچوئلی میری جماعت کو تحلیل کر دیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ لاہورہائیکورٹ میں کیس زیراء لتوا تھا تو پشاورہائیکورٹ کیوں گئے، جس پر پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ لاہورہائیکورٹ میں کیس تھوڑا مختلف تھا، لاہورہائیکورٹ میں بھی کیس لگتا ہے تو ہم پیش ہوں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر ایک ہائیکورٹ سے ریلیف نہیں ملتا تو دوسری سے کیسے لے سکتے ہیں، ایک ہائیکورٹ نے حکم امتناع نہیں دیا تو دوسری سے اسٹے لینے کی اجازت نہیں دیں گے، جس پر علی ظفر نے کہا کہ پی ٹی آئی نے انتخابات سے متعلق معاملہ ہائیکورٹ میں چیلنج کیا، جہاں کاغذات نامزدگی جمع ہوئے اس صوبے میں تومعاملہ چیلنج کرسکتے ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اگر چیئرمین گوہر ہٹ جاتے ہیں تو دوبارہ عمران خان کیا بن سکتے ہیں، اگر گوہر علی کہیں کہ میں عہدہ نہیں چھوڑتا پھرکیا ہوگا، جس پر پی ٹی آئی کے وکیل کا کہنا تھا کہ پارٹی انتخابات کے بعد نیا چیئرمین منتخب ہوسکتا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ نئے چیئرمین کے لیے گوہرعلی کواستعفی دینا پڑے گا۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ اگر 2 ہائیکورٹس بیک وقت کیس سننے کے لیے با اختیار ہوں تو کسی سے بھی رجوع کیا جا سکتا ہے، ایک ہائیکورٹ میں مقدمہ زیرالتواء ہو تو دوسری کو فیصلے کا انتظار کرنا چاہیئے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کے پی کا صوبائی الیکشن ٹھیک نہ ہوتا تو پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کرنا بنتا تھا۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ بیرسٹر گوہرالیکشن کمیشن کے حکم سے متاثرہ فریق ہیں، بیرسٹر گوہر کو پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کرنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟
بعدازاں سپریم کورٹ نے ایک بار پھر سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کردیا۔
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو بیرسٹر علی ظفر نے 10 منٹ میں دلائل مکمل کرنے کی یقین دہائی کرادی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا 10 منٹ ہی ہوں گے؟
دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا تو بیرسٹر گوہر کے گھر مبینہ چھاپے کے معاملے پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم نے آئی جی کو بھیجا تھا، جس پر وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے کہا کہ یہ تو اچھی بات ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا آئی جی اسلام آباد عدالت میں موجود ہیں؟جس پر وکیل علی ظفر نے بتایا کہ آئی جی اسلام آباد آئے تھے شاید باہر گئے آجائیں گے، الیکشن نہ کرواتے تو الیکشن کمیشن کا پوچھنا بنتا تھا، ایک بندے کو کاغذات نہ ملے پر پارٹی کو الیکشن سے باہر نہیں کیا جاسکتا، کسی دوسری جماعت کے ساتھ یہ رویہ نہیں، الیکشن کمیشن کو ٹریبونل بننے کا اختیار کہاں سے مل گیا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ انٹرا پارٹی الیکشن میں مسئلہ ہو کہاں رجوع کیا جاسکتا ہے؟
پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل مکمل کرلیے جس کے بعد آئی جی اسلام آباد عدالت پیش ہوگئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئی جی صاحب معاملےکی معلومات رکھتے ہیں، ہمارے سامنے ایک سنجیدہ شکایت آئی ہے، تشویشناک صورتحال ہے فوری سنیں اور کارروائی کریں، جس پر آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ پولیس اشتہاریوں کی تلاش میں گئی تھی۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ پولیس کو کن اشتہاریوں کی اطلاع تھی، جس پر آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ مجھےعلم نہیں کہ اشتہاری کون تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئی جی صاحب فوری جائیں یہ ہماری ترجیج ہے، آئی جی بیرسٹر گوہر کے گھر سے معلومات اکھٹی کریں، گوہر صاحب مطمئن نہ ہوئے تو مزید کارروائی کریں گے۔
جس کے بعد بیرسٹر گوہر آئی جی اسلام آباد کے ہمراہ سپریم کورٹ سے روانہ ہوگئے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر خان سے تحریری رپورٹ طلب کرلی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی لازمی ہونی چاہیئے، ہر شہری کو مکمل تحفط حاصل ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ عدالتی کارروائی کے دوران جو واقعہ پیش آیا جس سے ایک نتیجہ نکلتا ہے، ہم نے اسی لیے پشاور کا انتخاب کیا، یہاں ہمارے ورکرز کو حراساں کیا جا رہا ہے، میں تاثر کی بنیاد پر بات کر رہا ہوں، ہائیکورٹ ایک کیس میں رہا کرتی ہے پھر دوبارہ گرفتار کر لیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اختیار سماعت کو کھینچنے کے لیے رجوع کیا جاتا ہے، الیکشن کمیشن اپیل دائر نہیں کر سکتا یہ بہت عجیب دلیل ہے، ہمیں پارلیمنٹ اور الیکشن کمیشن کا بہت احترام ہے، آپ کے لیے اچھی خبر ہے، ہمیں ابھی بتایا گیا ہے، الیکشن کمیشن نے انتخابات الاٹمنٹ کے وقت میں 7 بجے تک اضافہ کردیا ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ میری درخواست ہے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کریں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ دلائل ختم کریں ہم فیصلہ کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ لاہور میں کیس زیر سماعت تھا تو پشاور ہائیکورٹ کیوں گئے، جس پر حامد خان نے کہا کہ دونوں کیسز الگ ہیں، الیکشن کمیشن ادارہ ہے متاثرہ فریق کیسے ہوسکتا ہے، الیکشن کمیشن کی اپیل ناقابل سماعت ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 185 میں اپیل دائر کرنے کے لیے متاثرہ فریق کا ذکر موجود ہے؟ جس پر پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ اپیل کے لیے متاثرہ فریق کا لفظ موجود نہیں ہے،
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر ہائیکورٹ الیکشن کمیشن کو تحلیل کردے تو کیا ادارہ اپیل نہیں کر سکے گا؟ کمیشن کے کسی رکن کو ہٹایا جائے تو کیا کمیشن اپیل نہیں کر سکتا؟ معاملہ اگر کسی رکن کی تعیناتی غیرقانونی ہونے کا ہو تو الگ بات ہے، جس پر حامد خان نے کہا کہ معلومات تک رسائی کے متعلق فیصلے میں سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ عدالت درخواست گزار نہیں ہوسکتی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ ہائیکورٹ میں درخواست دائر نہیں کر سکتی، الیکشن کمیشن کیخلاف کیسز ہوسکتے ہیں تو وہ اپنا دفاع کیوں نہیں کر سکتے؟ اگر ہائیکورٹ خود اپیل کرے تو بات مختلف ہوگی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اے این پی کو 2 لاکھ جرمانہ ہوا پی ٹی آئی کو 2021 میں جرمانہ نہیں ہوا، کل کو اے این پی کہہ سکتی ہے کہ پی ٹی آئی کو جرمانہ نہیں کیا ہمیں کیوں کر دیا۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ ایک جماعت جس نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے اس کو انتحابی نشان بھی دے دیا گیا، اے این پی والا فیصلہ الیکشن کمیشن کے دوہرے معیار کو واضح کرتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان صاحب کیا آپ خود الیکشن لڑ رہے ہیں، جس پر حامد خان نے کہا کہ میں خود الیکشن نہیں لڑ رہا، میری اب عمر نہیں ایسی سرگرمی میں حصہ لوں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم الیکشن کمیشن کا کنڈکٹ دیکھ رہے ہیں تو پارٹی کا کنڈکٹ بھی دیکھیں گے، یہ تو ڈرامائی الفاظ ہیں، اگر یہ 14 لوگ الیکشن لڑتے تو ووٹرز کے حقوق کیسے متاثر ہوتے؟۔
پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ درخواست گزار پارٹی ممبر ہی نہیں ہیں تو الیکشن کیسے لڑتے، بانی رکن اپنی پارٹی کےخلاف کیسے عدالتوں میں جا چکا ہے، اکبر بابر کو شوکاز جاری کیا گیا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ شوکاز نوٹس دکھا دیں، جس پر حامد خان نے کہا کہ اکبر بابر کا پارٹی سے نکالنے کا فیصلہ عدالت میں چیلنج نہیں ہے، تین دن پہلے ایک بانی ممبر ایم کیو ایم میں شامل ہوا ہے، کیا بانی ممبر ہمیشہ ہی رکن رہ سکتا ہے؟۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت میں کیس انتخابی نشان کا ہے اندرونی طریقہ کار کا نہیں، جس پر حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرے اسے دیکھنا ہو گا اثرات کیا ہوں گے۔
بعدازاں پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے اپنے دلائل مکمل کر لیے۔
پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر کے وکیل احمد حسن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اکبر ایس بابر پی ٹی آئی کےبانی رکن ہیں، اکبر ایس بابر کو الیکشن کا حصہ نہیں بننے دیا گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اکبر ایس بابر اب بھی پارٹی ممبر ہیں۔
وکیل احمد حسن نے کہا کہ1999 کا پارٹی آئین ریکارڈ پر موجود ہے، آئین ساز کمیٹی کے ممبران غیر فعال یا چھوڑ گئے، آئین ساز کمیٹی کے ممبر حامد خان موجود ہیں، بانی ارکان میں عارف علوی اور اکبر ایس بابر شامل ہیں، اکبر ایس بابر کو بیانات پر شوکاز نوٹس جاری کیا گیا تھا، ممنوعہ فنڈنگ کیس میں ممبر شپ پر اعتراض اٹھایا گیا، پارٹی انتخابات درست نہ ہو تو انتخابی نشان نہیں مل سکتا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کر دیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی کو وقت دیا گیا الیکشن بعد میں کرا لے، جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ اے این پی کے اگلے انٹرا پارٹی الیکشن میں 5 سال مکمل نہیں ہوئے، اے این پی کو مہلت 5 سال میں رہتے ہوئے دی گئی۔
چیف جسٹس استفسار کیا کہ پہلے الیکشن فیصلے کے خلاف رٹ لاہور ہائیکورٹ منظور کر لے تو کیا ہو گا؟ جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ 8 جون والے الیکشن فیصلے کے خلاف رٹ منظور کر لے تو دوسرا الیکشن غیر مؤثر ہوجاتا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمیں لگا تھا آپ ہمیں جمہوریت سے متعلق زیادہ بتائیں گے، جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ یہ عدالت اور ہائیکورٹس کسی قانون کو صرف درست یا غلط کہہ سکتی ہیں، عدالت کسی قانون کو یہ نہیں کہہ سکتی یہ فضول ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ تو جارحانہ قسم کا لفظ ہے، ہوسکتا ہے پشاور ہائی کورٹ کو لگا ہو کہ لاہور میں ایک ہی درخواست دائر ہوئی ہے، پشاور ہائیکورٹ کو 3 درخواستیں زیرالتواء ہونے کا علم نہیں ہوگا، کیا پی ٹی آئی کو 2021 میں شوکاز نوٹس کسی شکایت پر دیا گیا تھا؟ جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا 2021 والا شوکاز کسی شکایت پر نہیں تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم سمجھ رہے تھے آپ جمہوریت کے حوالے سے ہمیں کچھ بتائیں گے، پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رہا تو شاید انٹرا پارٹی انتخابات کا سلسلہ ختم ہوجائے گا۔
بعدازاں سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کو بلے کا انتخابی نشان الاٹ کیے جانے سے متعلق پشاورہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت مکمل ہوگئی جس کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ محفوظ فیصلہ کچھ دیر تک سنایا جائے گا، ابھی ہم کچھ نہیں کہہ سکتے، ہمیں سانس لینے دیں، اپنے ساتھی ججز سے بھی مشاورت کرنا ہوگی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ دونوں جانب سے اچھے دلائل دیے گئے، دلائل حذب کرنے اور نتیجے پر پہنچنے میں وقت لگے گا۔
الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو بلے کا انتخابی نشان دینے کے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر اپیل میں موقف اختیار کیا ہے کہ پی ٹی آٸی نے انٹر پارٹی انتخابات الیکشن ایکٹ کے تحت نہیں کروائے۔پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ آئین اور قانون کے خلاف ہے، ہاٸیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔
یاد رہے کہ بدھ 10 جنوری کو پشاورہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو بلے کا نشان واپس دینے کا فیصلہ دیا تھا اور الیکشن کمیشن کو حکم دیا تھا پی ٹی آئی کو سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا فیصلہ ویب سائٹ پر بھی جاری کیا جائے۔
پی ٹی آئی نے پشاور ہائیکورٹ میں الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت درخواست دائر کی جس پر ایک مرتبہ اس کے حق میں ایک مرتبہ خلاف فیصلہ آیا جس کے بعد پشاور ہائیکورٹ نے تیسرے فیصلے میں انٹرا پارٹی الیکشن بحال کردیئے۔
مذکورہ فیصلے کیخلاف اپیل اب سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔