عالمی منڈی میں تیل کے بڑھتے ہوئے نرخوں کے باعث دنیا بھر میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بتدریج بڑھائے جاتے رہے ہیں۔
جنوبی امریکا کے ملک کیوبا نے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں 500 فیصد تک اضافہ کردیا ہے۔ اس فیصلے سے ملک بھر میں عوام پریشان ہیں۔ توانائی کے بحران کے باعث لوگوں کے لیے ڈھنگ سے جینا ویسے ہی انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔
کیوبا میں افراطِ زر بہت زیادہ ہے اور ملک کی پیداواری صلاحیت بھی زیادہ نہیں رہی۔ ایسے میں عام آدمی کے لیے ڈھنگ سے جینا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔
کیوبا کی حکومت اشتراکی ہے۔ اسے نقدی کی اشد ضرورت ہے۔ اس کا ایک حل یہ تلاش کیا گیا ہے کہ یکم فروری سے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں 500 فیصد تک اضافہ کیا گیا ہے۔
پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں یہ غیر معمولی اضافہ بجٹ خسارے پر قابو پانے کے اقدامات کا حصہ ہے۔ ریگیولر اور پریمیم پترول کے نرخوں میں کیے جانے والے اس اضافے سے عام اآدمی کی نیند اڑ گئی ہے۔
بہت سے لوگ اس خیال سے پریشان ہیں کہ کام پر جانے کی خاطر موٹر سائیکل اور کار میں انہیں جو پٹرول ڈلوانا پڑے گا اس کی ماہانہ لاگت نصف تنخواہ کے مساوی ہوگی۔
کیوبا کی آبادی ایک کروڑ 10 لاکھ ہے۔ اسے بدترین معشی بحران کا سامنا ہے۔ ایندھن اور دیگر ضروری اشیا کی خریداری ویسے ہی مشکل ہے۔ نئے نرخوں کے ساتھ لوگوں کے لیے ایندھن خریدنا جوئے شیر لانے جیسا ہو جائے گا۔
یاد رہے کہ کیوبا میں تمام بنیادی اشیائے ضرورت پر حکومت کی طرف سے سبسڈی دی جاتی ہے۔ معاشی امور کے وزیر ایلیجانڈرو گِل کا کہنا ہے کہ کیوبا میں پترولیم مصنوعات کے کم ترین نرخ رہے ہیں۔ اب نرخ بڑھائے بغیر چارہ نہیں۔