سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے اپنا استعفیٰ صدر مملکت کو بھجوایا دیا۔
استعفے میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا ہے کہ میں نے لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں فرائض انجام دیے ہیں۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے اپنے استعفے میں مؤقف اختیار کیا کہ میرے لیے اپنے عہدے پر کام جاری رکھنا ممکن نہیں۔
مستعفی ہونے کے بعد جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی سپریم کورٹ سے اپنے گھر روانہ ہوگئے جبکہ بعد میں معلوم ہوا کہ انہوں نے استعفے میں بڑی غلطی کردی ہے۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استعفے کی کاپی میں تاریخ ایک سال پہلے کی یعنی 10 جنوری 2023 درج کردی۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے استعفے پر غلط تاریخ درج ہونے کے معاملے پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے سیکرٹری نے صدر مملکت عارف علوی کو مراسلہ ارسال کردیا۔
مراسلے میں کہا گیا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے استعفے پر غلطی سے تاریخ میں سال 2023 لکھا گیا، تاریخ میں سال 2024 تصور کرتے ہوئے استعفی منظور کیا جائے۔
مراسلے مزید کہا گیا کہ استعفے پر غیر دانستہ طور پر 2024 کی بجائے 2023 کا سال لکھا گیا۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس اعجاز الاحسن نے گزشتہ روز جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کی جانے والی کارروائی پر سوالات اٹھائے تھے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے جوڈیشل کونسل لکو لکھے گئے اپنے خط میں کہا تھا کہ کونسل کی جانب سے کارروائی روایات کے خلاف غیر ضروری جلد بازی میں کی جا رہی ہے، اور مطالبہ کیا تھا کہ جسٹس مظاہر نقوی کو دیا گیا شوکاز نوٹس واپس لیا جائے۔
قبال ازیں آج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کو شوکاز نوٹس کا تفصیلی جواب جمع کرا دیا تھا، جس میں انہوں نے خود پر عائد الزامات کی تردید کی تھی۔
جسٹس مظاہر نقوی کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل جج کے خلاف معلومات لے سکتی ہے کسی کی شکایت پر کارروائی نہیں کر سکتی، سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری احکامات رولز کی توہین کے مترادف ہیں۔
جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ رولز کے مطابق کونسل کو معلومات فراہم کرنے والے کا کارروائی میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔
جسٹس مظاہر نقوی نے اٹارنی جنرل کی بطور پراسیکیوٹر تعیناتی پر بھی اعتراض کردیا۔
جسٹس مظاہر نقوی نے جواب میں کہا کہ کونسل میں ایک شکایت کنندہ پاکستان بار کونسل بھی ہے، اٹارنی جنرل شکایت کنندہ پاکستان بار کونسل کے چیئرمین ہیں۔
جواب میں کہا گیا کہ بار کونسلز کی شکایات سیاسی اور پی ڈی ایم حکومت کی ایماء پر دائر کی گئی ہیں، پاکستان بار کی 21 فروری کو اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات ہوئی، شہباز شریف سے ملاقات کے روز پاکستان بار کونسل نے شکایت دائر کرنے کی قرارداد منظور کی۔
جواب میں مزید کہا گیا کہ شوکاز کا جواب جمع کرانے سے پہلے ہی گواہان کو طلب کرنے کا حکم خلاف قانون ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے جواب میں کہا کہ یہ الزام غلط ہے کہ مجھ سے کوئی بھی شخص باآسانی رجوع کر سکتا ہے، غلام محمود ڈوگر کیس خود اپنے سامنے مقرر کر ہی نہیں سکتا تھا یہ انتظامی معاملہ ہے، غلام محمود ڈوگر کیس میں کسی قسم کا کوئی ریلیف نہیں دیا تھا۔
انہوں نے جواب میں مزید بتایا کہ لاہور کینٹ میں خریدا گیا گھر ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کردہ ہے، ایس ٹی جونز پارک میں واقع گھر کی قیمت کا تخمینہ ڈی سی ریٹ کے مطابق لگایا گیا تھا۔ میں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا نہ ہی مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوا، گوجرانوالہ میں خریدا گیا پلاٹ جج بننے سے پہلے کا ہے اور اثاثوں میں ظاہر ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے لکھا کہ زاہد رفیق نامی شخص کو کوئی ریلیف دیا نہ ہی ان کے بزنس سے کوئی تعلق ہے، میرے بیٹوں کو اگر زاہد رفیق نے پلاٹ دیا ہے تو اس سے میرا کوئی تعلق نہیں، دونوں بیٹے وکیل ہیں اور 2017 سے ٹیکس گوشوارے جمع کراتے ہیں، جسٹس فائز عیسی کیس میں طے شدہ اصول ہے کہ بچوں کے معاملے پر جوڈیشل کونسل کارروائی نہیں کرسکتی، پارک روڈ اسلام آباد کے پلاٹ کی ادائیگی اپنے سیلری اکاؤنٹ سے کی تھی، الائیڈ پلازہ گجرانوالہ سے کسی صورت کوئی تعلق نہیں ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل سے شکایات خارج اور کارروائی ختم کرنے کی استدعا کردی۔