پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو بلے کا نشان واپس مل گیا ہے، پشاور ہائیکورٹ نے بلے کے نشان کی بحالی کیلئے پی ٹی آئی کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سنا دیا۔
پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کی بلا بحالی کی درخواست منظور کرلی اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کا 22 دسمبر کا فیصلہ غیر آئینی ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پی ٹی آئی بلے کے نشان کی حقدار ہے اور الیکشن کمیشن کو ہدایت کی کہ وہ پی ٹی آئی کو بلے کا نشان دے اور پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کا سرٹیفیکیٹ ویب سائٹ پر جاری کرے۔
پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان کیس کا مختصر تحریری فیصلہ جاری کردیا، مختصر فیصلہ 2 صفحات پر مشتمل ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ غیرقانونی ہے، الیکشن کمیشن کے پاس فیصلے کا اختیار نہیں تھا، الیکشن کمیشن پی ٹی آئی سرٹیفیکٹ ویب سائٹ پر جاری کرے، پی ٹی آئی بلے انتخابی نشان کی حقدار ہے۔
پشاور ہائیکورٹ میں بلے اور انٹرا پارٹی الیکشن کیس کی آج سماعت ہوئی، جسٹس اعجاز انور اور جسٹس ارشد علی نے کیس کی سماعت کی ، گزشتہ روز الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی کے وکلا نے چھ گھنٹے تک دلائل دیے تھے۔
کیس میں الیکشن کمیشن سمیت 15 فریقین ہیں، جن میں اکبر ایس بابر، راجہ طاہر نواز، نورین فاروق و دیگر شامل ہیں۔
گزشتہ روز صرف الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل مکمل ہوئے تھے، آج عدالت نے 14 میں سے 6 فریقین اور ان کے وکلاء کو سنا۔
سماعت شروع ہونے سے قبل پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ امید ہے آج عدالت جلد فیصلہ سنائے گی، آج تاریخی دن ہے اور اہم فیصلہ ہوگا، آج جمہوریت کی تاریخ کا اہم فیصلہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اگر بلا نہ ملا تو بھی تیار ہیں، لیکن فی الحال اس پر نہیں سوچنا چاہئے۔
چئیرمین پی ٹی بیرسٹر گوہر علی خان کہتے ہیں امید ہے آج فیصلہ آ جائے گا، پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ آتا ہے تو سپریم کورٹ کیس کی ضرورت نہیں ہوگی۔
سماعت شروع ہوئی تو کیس میں فریق جہانگیر کے وکیل نوید اختر ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس حوالے سے آج سپریم کورٹ میں بھی کیس لگا ہے۔
جس پر جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ یہ بات کل ختم ہوچکی ہے، انہوں (پی ٹی آئی وکیل) نے بتایا کہ وہ وہاں کیس نہیں کررہے۔
جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ اگر کل یہ نہ بتایا ہوتا تو ہم پھر پرسوں کی تاریخ دیتے۔
جس پر پی ٹی آئی وکیل بیرسٹر علی ظفر نے ایک بار پھر سپریم کورٹ میں پرسوں کیس نہ کرنے کی یقین دہانی کرادی۔
دورانِ سماعت کیس میں فریق صوابی کے یوسف علی کے وکیل قاضی جواد ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میرے مؤ کل پی ٹی آئی کے سابقہ ضلعی جنرل سیکرٹری رہے ہیں، میرے مؤکل نے پی ٹی آئی کے مرکزی دفتر سے معلومات لینا چاہیں، جو ان کو نہیں ملیں، میڈیا سے پتہ چلا کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے، ہم نے درخواست کی کہ انتخابات کالعدم قرار دیے جائیں، میرے مؤکل انتخابات میں حصہ لینا چاہتے تھے مگر انہیں موقع نہیں دیا گیا۔
جسٹس اعجاز انور نے سوال کیا کہ آپ نے یہ نہیں کہا کہ انٹرا پارٹی الیکشن دوبارہ کرائے جائیں؟ الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دیے تو آپ کو چاہیے تھا کہ دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کرتے، آپ اگر پارٹی سے تھے تو پارٹی نشان واپس لینے پر آپ کو اعتراض کرنا چاہیے تھا آپ نے نہیں کیا۔
وکیل قاضی جواد نے کہا کہ ہمیں تو انتخابات میں موقع نہیں دیا گیا اس لیے ان کے خلاف الیکشن کمیشن گئے۔
جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ پشاور میں پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے جو الیکشن کمیشن نے کالعدم قرار دیے، پشاور ہائیکورٹ کو پٹیشن سننے کا اختیار کیسے نہیں ہے۔
قاضی جواد ایڈووکیٹ نے کہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات پورے ملک کے لیے ہیں، ہائیکورٹ صرف صوبے کو دیکھ سکتا ہے۔
جسٹس ارشد علی نے استفسار کیا کہ کیا ہر صوبے میں الگ الگ کیس کرنا چاہئے تھا ان کو؟ انٹرا پارٹی الیکشن پشاور میں ہوا تو یہاں پر کیسے کیس نہیں کرسکتے؟
جسٹس اعجاز انور نے استفسار کیا کہ جو الیکشن ہوئے اس میں تمام ممبران الیکٹ ہوئے یا صرف صوبے کی حد تک؟ جس پر قاضی جواد ایڈووکیٹ نے کہا کہ پورے ملک کے نمائندے منتخب ہوئے۔
قاضی جواد ایڈووکیٹ نے کہا کہ دائرہ اختیار کا سوال انتہائی اہم ہے، عدالتوں کے مختلف فیصلوں میں ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار کا تعین ہوا ہے، پی ٹی آئی تو لاہور ہائی کورٹ بھی گئی، وہاں ان کی درخواست خارج ہوئی۔
جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ نے لکھا ہے کہ پشاور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں یہ کیس زیرِ سماعت ہے، پشاور ہائی کورٹ کو فیصلہ کرنے دیں۔
قاضی جواد ایڈووکیٹ نے کہا لاہور ہائیکورٹ نے کیس کو خارج کیا ہے۔ جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ وہ آرڈر آپ نے پڑھا ہے؟ اس میں کہا ہے کہ کیس پشاور ہائیکورٹ میں ہے اس لئے مداخلت نہیں کرتے۔
جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ کیا کوئی انتخابات بغیر نشان کے منعقد ہوئے؟
قاضی جواد ایڈووکیٹ نے کہا کہ ماضی میں نان پارٹی انتخابات ہوئے، پارٹیز ختم بھی ہوئیں تو نئی بن گئیں۔
جس پر جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ دیکھ لیں وہ مارشل لاء کے دور میں ہوا ہے۔
وکیل قاضی جواد نے جواباً کہا کہ لیکن یہ سب ایک لیگل فریم کے اندر ہوا ہے۔
جسٹس اعجاز انور نے استفسار کیا کہ اچھا آپ یہ بتائیں آپ کی پارٹی ہے تو کیا ان کو انتخابی نشان ملنا چاہیے؟
قاضی جواد نے کہا کہ میں رولز کی بات کرتا ہوں جو قانون ہے وہی ہونا چاہئے۔
جسٹس ارشد علی نے کہا، نہیں ویسے آپ کیا چاہتے ہیں ان کے خلاف انتخابی نشان واپسی کی کارروائی ٹھیک ہے؟
قاضی جواد نے کہا کہ میں تو قانون کی بالادستی کی بات کرتا ہوں اور قانون کے مطابق کارروائی کو سپورٹ کرتا ہوں۔
قاضی جواد نے کہا کہ ماضی میں ایک پارٹی دو حصوں میں تقسیم ہوئی اور ایک ہی انتخابی نشان پر مسئلہ کھڑا ہوا، الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان پر مسئلہ حل کیا کیونکہ اس کو اختیار حاصل تھا، میں چاہتا ہوں کہ دوبارہ انٹرا پارٹی انتخابات ہوں اور اس میں حصہ لوں۔
قاضی جواد نے کہا کہ ان کو شوکاز نوٹسز دیے گئے، یہ ایک تسلسل ہے، یہ کوئی ایک دن میں نہیں ہوا۔
یہاں پر کیس میں فریق صوابی کے یوسف علی کے وکیل قاضی جواد کے دلائل مکمل ہوگئے۔
اس کے بعد کیس میں فریق کوہاٹ کے شاہ فہد کے وکیل طارق آفریدی کے دلائل شروع ہوئے۔
طارق آفریدی نے دلائل کے آغاز میں کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ سن سکتا ہے، پشاور ہائیکورٹ اس کیس کو نہیں سن سکتا، ہائیکورٹ کے حدود سے متعلق آرٹیکل 199 واضح ہے۔
جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ آپ کو عدالت میں موجود ہونا چاہئے تھا، قاضی جواد نے بھی اختیارات پر ایک گھنٹہ لیا۔
کیس میں فریق کوہاٹ کے شاہ فہد کے دوسرے وکیل احمد فاروق بھی عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ یہ پارٹی جیسے ہی بنی وہی سے لاڈلہ پن شروع ہوا۔
جس پر جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ آپ قانونی بات کریں، یہاں پر کبھی اور کبھی دوسرا لاڈلہ بن جاتا ہے۔
احمد فاروق ایڈووکیٹ نے کہا کہ انہوں نے اپنے ہی کارکنوں کو لیول پلینگ فیلڈ نہیں دیا، انٹرا پارٹی انتخابات کا اچانک بلبلا اٹھا اور اعلان کیا گیا کہ کابینہ بن گئی۔
جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے کہ وہی بلبلا ابھی پھٹا ہے، جس پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔
احمد فاروق نے کہا کہ انتخابات آئین کے مطابق نہیں کرائے گئے، الیکشن کمیشن فیصلہ کے خلاف بھی سول کورٹ جانا چاہئے تھا۔
وکیل احمد فاروق نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں یہ لازمی نہیں کہ انتخاباب میں وہی نشان ملے گا، اگر دو جماعتیں ایک ہی نشان مانگ لیں تو الیکشن کمیشن کو اختیار ہے۔
احمد فاروق نے کہا کہ ماضی چراغ سے جھونپڑی بن گئی اور پھر کچھ اور۔
یہاں کیس میں فریق کوہاٹ کے شاہ فہد کے وکلاء کے دلائل مکمل ہوگئے۔
اس کے بعد فریق نورین فاروق اور راجہ طاہرکے وکیل میاں عزیز الدین کے دلائل شروع ہوئے جنہوں نے کہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کے بعد سرٹیفیکٹ مجاز شخص نے جمع نہیں کیا، جب فریقین کو معلوم ہوا تو عدالت میں کیس کردیا۔
میاں عزیزالدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالت نے کیس کمیشن کے پاس بھیج دیا، اس کے بعد مجاز شخص کے ذریعے سرٹیفیک جمع کیا گیا۔
یہاں پر میاں عزیز الدین کے دلائل بھی مکمل ہوگئے۔
کیس میں فریق چارسدہ کے جہانگیر کے وکیل نوید اختر نے اپنے دلائل میں کہا کہ میرا مؤکل ضلعی صدر رہ چکا ہے، ایک بیان پر جہانگیر کو پارٹی سے فارغ کیا گیا، آئین کے مطابق عہدیداروں کومنتخب نہیں کیا گیا، عہدیداروں کی اپڈیٹڈ فہرست الیکشن کمیشن کو دینی ہوتی ہے۔
نوید اختر نے کہا کہ انتخابی نشان بھی سیاسی پارٹیوں کی کریڈیبلیٹی کےمطابق دیا جاتا ہے، پارٹی کے آئین اور ووٹرز کے تحفظ کو مدنظررکھنا ضروری ہے۔
اس کے بعد عدالت نے سماعت میں وقفہ کردیا۔
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو نوید اختر ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل دوبارہ شروع کیے۔
جسٹس ارشد علی نے کہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات پر جرمانہ ہوسکتا ہے، کیا الیکشن کمیشن نے یہ کارروائی کی ہے؟
جس پر نوید اختر نے کہا کہ نہیں، الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ 215 کے تحت کارروائی کی۔
جسٹس ارشد علی نے کہا کہ اس سکیشن میں تو انٹرا پارٹی انتخابات کی بات نہیں ہے۔
نوید اختر نے کہا کہ قانون کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات پارٹی آئین اور الیکشن ایکٹ کے مطابق ہونے چاہئیں، اس رو سے انٹرا پارٹی انتخابات خود بخود 215 سیکشن میں آتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرے مؤکل نے پہلے انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کیلئے درخواست دی تھی۔
جس پر جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ وہ بات تو ختم ہوگئی نا، جب الیکشن کمیشن نے 20 دن کا وقت دیدیا۔
ایڈووکیٹ نوید اختر کے بعد بیرسٹر علی ظفر ایک بار پھر دلائل کے لیے روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ اسلام آباد ہو یا پشاور ہائیکورٹ، کہیں بھی چینلج ہوسکتا ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ انتخابات یہاں ہوئے اور سیکرٹری جنرل عمر ایوب کا تعلق بھی اس صوبے سے ہے، اس صوبے میں دو بار اس پارٹی نے حکومت بھی کی ہے، پورے ملک کی مخصوص سیٹیں اس سے متاثر ہوں گی۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جہنوں نے انٹرا پارٹی انتخابات پر اعتراض کیا وہ تو پارٹی میں شامل ہی نہیں ہیں۔
جس پر جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ وہ کہہ رہے ہیں ہم تو ڈور سے نکل گئے ان لوگوں کو بھی نہیں چھوڑنا۔ جسٹس اعجاز انور کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہے پھوٹ پڑے۔
پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کا جواب الجواب مکمل ہوا تو عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟
جسٹس ارشد علی نے استفسار کیا کہ الیکشن ایکٹ کے 215 سیکشن میں انٹرا پارٹی انتخابات کا ذکر نہیں، یہ کارروائی آپ نے کیسے کی؟
جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر مہمند نے کہا کہ 215 سکیشن تب لاگو ہوتا ہے جب اختیار ہو، تو الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے، اس لئے اس درخواست کو مسترد ہی ہونا ہے۔
جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ آپ کے مطابق سیکشن 208 میں الیکشن ہوگا لیکن پارٹی کے آئین کے مطابق، آپ کے مطابق آپ نے شوکاز نہیں دیا، آیا یہ الیکشن ہے یا الیکشن آئین کے مطابق ہے؟
جس پر سکندر مہمند نے کہا کہ ایک سال دیا گیا، الیکشن نہیں کیا گیا، الیکشن ایکٹ اور پارٹی آئین کے مطابق انتخابات کرانا لازمی ہیں، اگر وقت پر انتخابات نہ کروائے تو جرمانہ ہوتا یہاں تو آئین کے مطابق انعقاد ہی نہیں کیا گیا۔
سکندر مہمند نے کہا کہ مائی لارڈ شاید میں نے آپ کے سوال کا جواب دے ہی دیا۔
جس پر جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ یہ تشنگی باقی رہے گی۔
جسٹس اعجاز انور کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہ لگ گئے۔
دوسری جانب سپریم کورٹ میں بھی بلے کے نشان سے متعلق کیس آج سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔
دوران سماعت پی ٹی آئی وکیل بیرسٹر گوہر عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ ہم درخواست واپس لینا چاہتے ہیں۔
جس پر عدالت نے پی ٹی آئی کی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر خارج کردی۔