پشاور ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم اور الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی نشان بلا واپس لینے سے متعلق کیس کی سماعت 6 گھنٹے تک جاری رہی لیکن الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی کے وکلاء نے دلائل مکمل کر لیے، عدالت نے دیگر فریقین کو مہلت دیتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر کو پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دیے تھے، پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس کامران حیات نے 26 دسمبر کو الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کیا تھا لیکن پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس اعجاز خان نے 3 جنوری کو معطلی کا فیصلہ واپس لے لیا تھا۔
پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس اعجاز انور اور جسٹس ارشد علی نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان واپسی کے خلاف کیس کی سماعت شروع کی تو پی ٹی آئی وکیل شاہ فیصل اتمانخیل اور الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر شاہ مہمند عدالت میں پیش ہوئے۔
پی ٹی آئی وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ بیرسٹر گوہر راستے میں ہیں، کیس کو کچھ دیر کے لیے ملتوی کردیا جائے۔
اس دوران الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ہم جواب جمع کرتے ہیں، جس پر جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ آپ ابھی جواب جمع کرلیں۔
عدالت نے سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کردی۔
کافی دیر گزرنے کے بعد بھی بیرسٹر گوہر نہ پہنچے تو پی ٹی آئی وکلاء نے ساڑھے بارہ بجے تک وقت دینے کی استدعا کی تاہم بیرسٹر گوہر ساڑھے 12 بجے بھی پیش نہ ہوسکے۔
عدالت نے برہمی کا اظہار کیا تو ایڈووکیٹ قاضی انور نے کہا کہ بس 5 سے 10 منٹ میں پہنچ جائیں گے۔
جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ صبح سے ہم اس کے لیے انتظار کر رہے ہیں، سپریم کورٹ میں جب ہمارے کیسز ہوتے تھے تو ہم صبح پہنچتے تھے، یہ کونسا طریقہ ہےبینچ کوانتظار کروایا جارہا ہے
قاضی انور ایڈووکیٹ نے استدعا کی کہ بس تھوڑا وقت دیا جائے، کچھ دیر میں پہنچ جائیں گے۔ اس کے بعد عدالت نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اپنا جواب جمع کردیا ہے۔
جسٹس اعجاز انور نے پی ٹی آئی وکیل سے استفسار کیا کہ آپ سپریم کورٹ سے سماعت میں تو دلچسپی نہیں لے رہے، آپ یہاں سے آج سماعت چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل قاضی انور نے کہا کہ نہیں ہم یہاں سماعت چاہتے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ پھر ٹھیک ہے وہ آجائیں تو کیس سنتے ہیں۔
عدالت میں بیرسٹر گوہر اور بیرسٹر ظفر کا انتظار جاری تھا کہ اس دوران جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ اعتراض کرنے والے وکلاء کو بھی طلب کیا جائے۔
جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ تحریک انصاف کے انتخابات پر سب سے پہلا اعتراض اکبر ایس بابر کا ہے، وہ کہاں ہیں؟
الیکشن کمیشن میں درخواست دینے والے جہانگیر رضا نے عدالت میں بیان دیا کہ میرا وکیل ہڑتال کی وجہ سے کورٹ میں نہیں آرہا، جس پر جسٹس انور اعجاز نے کہا کہ یہ کورٹ ہے ہمارا ہڑتال سے کوئی سروکار نہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 13 تاریخ کو الیکشن کمیشن امیدوار کو انتخابی نشانات الاٹ کرے گا، پی ٹی آئی کو اگر نشان الاٹ نہیں ہوتا تو وہ آزاد تصور ہوں گے، ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کو عبوری ریلیف دیا تھا وہ ختم ہوگیا ہے۔
جسٹس ارشد علی نے استفسار کیا کہ اگر ہم آج فیصلہ کرلیں تو یہ مسئلہ ختم ہوسکتا ہے؟ سپریم کورٹ میں کیس کی ضرورت نہیں؟ جس پر الیکشن کمیشن نے کہا کہ بالکل پھر ضرورت نہیں۔
جسٹس اعجاز انور نے پی ٹی آئی وکلاء کو کہا کہ آپ ان کو سمجھا دیں کہ وقت پر آیا کریں، مزید انتظار نہیں ہوگا،ایک بج کر 15 منٹ پر دوبارہ سماعت ہوگی، مزید وقت نہیں دیا جائے گا۔
اتنے میں پی ٹی آئی وکیل بیرسٹر علی ظفر اور بیرسٹر گوہر علی خان ہائیکورٹ پہنچ گئے۔
سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو بیرسٹر علی ظفر نے عدالت سے تاخیر سے پہنچنے پر معذرت کرلی۔
اس کے بعد پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کو شکایات دینے والوں نے دوبارہ انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کی استدعا کی تھی، پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات جون 2022 میں کرائے، ہم نے الیکشن کمیشن کو ریکارڈ پیش کیا، بعد میں الیکشن کمیشن نے اس پر سوالات اٹھانا شروع کئے اور آخر میں الیکشن کمیشن نے 20 روز میں دوبارہ انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کا حکم دیا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن حکم کے مطابق دوبارہ انٹرا پارٹی انتخابات کرائے، جب الیکشن کرائے تو الیکشن کمیشن نے کہا کہ اعتراض آگئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو اعتراضات دینے والے غیر متعلقہ لوگ ہیں، الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات پر کوئی سوال نہیں اٹھایا، الیکشن کمیشن نے کہا سیکرٹری جنرل عمر ایوب کی تعیناتی درست نہیں اور عمر ایوب کی تعیناتی پر انتخابات کو کالعدم قرار دیا۔
بیرسٹر علی ظفر نے مزید کہا کہ انتخابات کالعدم قرار دینے کے بعد انتخابی نشان لے لیا گیا، اب پی ٹی آئی کے امیدوار آزاد ہوں گے، پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے بھی محروم ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ جنہوں نے اعتراضات اٹھائے ہیں ان میں کوئی بھی پارٹی کے ممبر نہیں ہیں، ہمارے 8 لاکھ ووٹرز میں اعتراض کرنے والوں نے نام شامل نہیں۔
بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ ہم سے بلے کا نشان لے لیا جاتا ہے تو ہم غیر فعال ہو جائیں گے، پی ٹی آئی مخصوص 227 نشستوں میں اپنے حصے سے محروم ہوجائے گی، اگر آج فیصلہ نہ ہوا تو کروڑوں لوگ پارٹی کے حقوق سے محروم رہ جائیں گے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ اعتراضات کرنے والوں نے کہا ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات پی ٹی آئی آئین کے مطابق نہیں، یہ مسئلہ صرف 14 اعتراضات کرنے والوں کا نہیں پارٹی انتخابات کا ہے، اعتراض کرنے والوں کو کیوں انٹرا پارٹی الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی؟
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کسی بھی شخص کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی ، سب کچھ پہلے سے طے شدہ تھا۔
جسٹس سید ارشد علی نے استفسار کیا کہ آپ کو اس بات پر اعتراض ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن کا معاملہ الیکشن کمیشن کے اختیار میں نہیں آتا؟
جسٹس سید ارشد علی نے سوال کیا کہ جب 13 جنوری کو انتخابی نشانات الاٹ ہونے ہیں تو ایسے میں انٹرا پارٹی الیکشن ہوسکتے ہیں؟
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن کے لئے کسی سے کاغذاتِ نامزدگی طلب ہی نہیں کیے۔
عدالت نے کہا کہ کیوں نہ اس کیس کو پرسوں کے لیے رکھ لیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آپ انٹرم ریلیف کو دوبارہ بحال کردیں، جس پر جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ نہیں وہ ہم نے دیکھ لیا، آپ کا انٹرم ریلیف حتمی استدعا ہی ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ نہیں پھر بہت دیر ہوجائے گی 13 کو نشانات الاٹ ہوں گے، ہم پھر الیکشن کمیشن کو فہرست بھی نہیں پہنچا سکتے ہیں، جس پر عدالت نے کہا کہ ٹھیک ہیں آپ دلائل جاری رکھیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے حکم کے مطابق 20 دن میں انٹرا پارٹی انتخابات کرائے گئے، بیرسٹر گوہر انتخابات کے نتیجے میں پارٹی چئیرمین منتخب ہوئے، بیرسٹر گوہر نے ریکارڈ پر دستخط کرکے الیکشن کمیشن کو دیے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کا اختیار نہیں، اگر انٹرا پارٹی انتخابات نہ بھی کرائے جائیں تو الیکشن کمیشن کسی پارٹی کو انتخابی نشان سے محروم نہیں کرسکتا، الیکشن کمیشن صرف ”ریکارڈ کیپر“ ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ انتخابی نشان واپس لیا جانا پارٹی کو تحلیل کرنے مترادف ہے، آئین اور الیکشن ایکٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کا فیصلہ غیرقانونی و غیرآئینی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسی قانون میں الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہی نہیں، یہ اختیار شاید ہائیکورٹ کے پاس ہے، جس پر جسٹس ارشد علی نے کہا کہ نہیں ہمارے پاس بھی نہیں ہے۔
بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کوئی کورٹ آف لاء نہیں، ایسے تنازعے کے حل کے لیے ٹرائل ضروری ہے، ایسے تنازعات میں سول کورٹ ہی ٹرائل کرسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے سمری میں فیصلہ کیا ہے، جس پر جسٹس ارشد علی نے کہا کہ ایسے میں تو پھر کیس الیکشن کمیشن کو ریمانڈ ہوگا۔
جوباً بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ بالکل ریمانڈ ہوگا لیکن اگر الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہو, الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہی نہیں، الیکشن کمیشن نے صرف یہ اعتراض کیا کہ تعیناتی صحیح نہیں ہوئی.
انہوں نے استدعا کی کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ بدنیتی پر مبنی ہے، اسے کالعدم قرار دیا جائے۔
بیرسٹر علی ظفر نے مسلسل 2 گھنٹے دلائل دیے، جس پر جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ چائے پی لیں، آپ نے سفر بھی کیا ہے، 3 بج کر 30 منٹ پر جمع ہوں گے۔
جس کے بعد عدالت نے سماعت میں ساڑھے 3 بجے تک وقفہ کردیا۔
واقعے کے بعد پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے اور انتخابی نشان واپسی کے خلاف کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر مہمند نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ اور پشاور ہائیکورٹ کا کیس لفظ بہ لفظ ایک ہے، لاہور ہائیکورٹ نے 3 وجوہات کی بنیاد پر کیس کو خارج کیا ہے، پہلا یہ کہ کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، دوسرا یہ کہ کیس پشاور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے، تیسرا یہ کہ کیس میں قانون کو براہ راست چیلنج ہی نہیں کیا گیا۔
سکندر مہمند نے کہا کہ سپریم کورٹ میں کیس ہونے کی صورت میں ہائیکورٹ مداخلت نہیں کرسکتا، یہ کیس قابل سماعت بھی نہیں۔
جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ نے پشاور ہائیکورٹ کو عزت دی ہے، جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ میں کیس ہونے کی صورت میں ہائیکورٹ مداخلت نہیں کرسکتا یہ کیس قابل سماعت بھی نہیں، ایک ریلیف کے لیے دو عدالتوں سے رجوع نہیں کیا سکتا، الزام لگایا گیا کہ الیکشن کمیشن نے سمری فیصلہ کیا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ پی ٹی آئی کو کئی مواقع دئیے گئے کہ عملدرآمد کیا جائے جبکہ 20 دن پھر دیے گئے، الیکشن کمیشن نے واضح کیا تھا کہ انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے کی صورت میں نشان لیا جاسکتا ہے، الیکشن کمیشن نے یہ بات پہلے ہی نوٹس میں واضح کی تھی، پی ٹی آئی نے کوڈ کے باعث انتخابات نہ کرانے پر ایک سال مانگا الیکشن کمیشن نے دیا، الیکشن کمیشن نے اس کے بعد بھی کئی نوٹسز دیے، پی ٹی آئی نے مختلف دستاویز میں یوٹرن بھی لیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی نے آئین میں ترمیم کی لیکن جب الیکشن کمیشن نے طلب کیا تو واپس لیے، واپس لینے والے ترامیم پر اگر انتخاباب کرائے تو خود بخود انتخابات کالعدم ہوجاتے ہیں، الیکشن کمیشن سمجھتا ہے کہ پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات شفاف نہیں کرائے، 24 صحفات پر مشتمل درخواست میں صرف ایک پوائنٹ ہے کہ الیکشن کمیشن صرف ریکارڈ کیپر ہے، انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کا اختیار نہیں، پی ٹی آئی کا بیان غلط ہے، الیکشن کمیشن کے پاس آئینی طور پر اختیار ہے۔
سکندر مہمند نے اپنے دلائل میں یہ بھی کہا کہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ صاف وشفاف انتخابات کو یقینی بنائے، پی ٹی آئی نے کہا کہ فیصلے سے پارٹی کو تحلیل کیا گیا، یہ بات غلط ہے، اگر ایسا ہے تو پھر سپریم کورٹ جانا پڑے گا۔ یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ صرف انتخابی نشان واپس لینے کا کیس ہے، انٹرا پارٹی انتخابات صرف پارٹی آئین کے مطابق نہیں ہونے چاہئے بلکہ الیکشن ایکٹ کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا، الیکشن کمیشن کے پاس اختیار نہیں، یہ بات درست نہیں، انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد سے متعلق الیکشن کمیشن کا مطمئن کرنا ضروری ہے۔
جسٹس ارشد علی نے استفسار کیا کہ کیا انٹرا پارٹی انتخابات پر آپ کوئی کارروائی کرسکتے ہیں، جس پر سکندر مہمند نے کہا کہ جی بالکل کرسکتے ہیں۔
جسٹس اعجاز انور نے پوچھا کہ کیا آپ نے انہیں نوٹس دیا، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ 3 شوکاز دیے گئے۔
جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ وہ تو آپ انٹرا پارٹی انتخابات سے پہلے دیے تھے۔ جسٹس ارشد علی نے کہا کہ کیا انٹرا پارٹی انتخابات کے بعد ایک اور نوٹس نہیں دینا تھا۔
وکیل الیکشن کمیشن سکندر مہمند نے کہا کہ نہیں کیونکہ یہ کیس پہلے سے چلتا آرہا تھا اور پہلے نوٹسز دیے تھے، نئے شوکاز نوٹس کی ضرورت ہی نہیں، الیکشن کمیشن کورٹ نہیں، الیکشن کمیشن ایک خود مختیار ریگولیٹری اتھارٹی ہے، الیکشن کمیشن ہی ان معاملات کو سپروائز کرتا ہے، الیکشن کمیشن کے پاس آئینی اختیار ہے۔
سکندر مہمند نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری پوری کی، الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے اس پر فیصلے موجود ہیں، انٹرا پارٹی انتخابات پارٹی آئین کے مطابق کرانے ہوتے ہیں اور الیکشن کمیشن پھر اس کو دیکھتا ہے، بنیادی حق کی بات جو کی گئی وہ حق آئین و قانون کے مطابق بنتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی ائی ائین کے مطابق یہ وفاقی الیکشن کمیشن کے زریعے الیکشن کرائیں گے، پی ٹی ائی کا الیکشن کمشنر پورے ملک کے نمائندوں میں سے سلیکٹ کیا جائے گا، الیکشن کمشنر صرف ایک بندہ نہیں بلکہ پوری ایک باڈی اور مستقل سیکرٹریٹ ہوگا، انہوں نے ایک بندے کو الیکشن کمشنر بنا کر الیکشن کرائے جو کے ان کے ائین کے مطابق غیر آئینی ہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر مہمند نے بھی مختلف فیصلوں اور قوانین کے حوالے پیش کردیے۔
سپریم کورٹ فیصلوں کے حوالے دینے کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل بھی مکمل ہوگئے جبکہ الیکشن کمیشن کے وکیل نے بھی ڈھائی گھنٹے دلائل دیے۔
جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ کل تو سپریم کورٹ میں بھی کیس ہے، آپ کیا کریں گے، جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم واپس لے لیں گے کیونکہ تفصیل میں آپ نے کیس سن لیا، امید ہے آپ آج ہی فیصلہ کرلیں گے، جس پر جسٹس ارشد علی نے کہا کہ ممکن نہیں، بہت زیادہ مواد ہے، ہم نے پڑھنا بھی ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے سماعت پرسوں تک ملتوی کرنے کی استدعا کردی، الیکشن کمیشن کے وکیل کی استدعا پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ فریقین کے وکلاء ہڑتال کے باعث پیش نہیں ہوئے۔
بعدازاں کیس میں فریقین کے وکلاء عدالت میں پیش ہوگئے اور عدالت میں مؤقف اپنایا کہ صبح ہمیں وقت دیا جائے، آج ہڑتال ہے۔
جس پر عدالت نے کہا کہ کل صبح 9 بجے آپ کو سنیں گے، 9 بجے کے بعد آپ کو نہیں سنیں گے۔
جس کے بعد پشاور ہائیکورٹ نے کیس کی سماعت کل صبح 9 بجے تک ملتوی کردی۔