حال ہی میں دنیا کے لیجنڈری ترین ریسٹورنٹس کی فہرست میں کراچی سے تعلق رکھنے والے زاہد نہاری کی شمولیت پر سوشل میڈیا صارفین میں ایک نئی بحث چھڑ گئی، کراچی کے کھابوں کے شوقین بہت سے افراد کو اس بات پر شدید حیرت ہے۔
جہاں کچھ لوگوں نے فہرست میں زاہد نہاری کے 100 میں سے 89 ویں نمبر پر آنے پر حیرت کا اظہار کیا، وہیں دوسروں نے سوال اٹھایا کہ یہ فہرست کیسے بن گئی کیونکہ وہ ’زاہد نہاری‘ کو کراچی کا بہترین ریستورنٹ بھی نہیں سمجھتے کجاں کہ اس کی دنیا کے لیجنڈری ترین ریسٹورنٹس میں شمولیت۔
فوڈ ریویو کی عالمی اشاعت ٹیسٹ اٹلس کی جانب سے شائع کی جانے والی اس فہرست نے نہ صرف پاکستانی سوشل میڈیا صارفین کے مابین ایک نئی بحث کو جنم دیا بلکہ اس کے طریقہ کار پر بھی سوالات اٹھائے اور یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ایسے سوالات اٹھائے گئے ہوں۔
یہ ویب سائٹ صارفین کے جائزوں کی بنیاد پر اپنی درجہ بندی تیار کرتی ہے ، لہذا زاہد نہاری کو ’بیسٹ‘ نہ تسلیم کرنے والے بہت سے لوگوں نے سوال اُٹھایا کہ کیا جعلی جائزوں کے ذریعہ درجہ بندی کو ’بیوقوف‘ بنایا جاسکتا ہے۔
اس فوڈ گائیڈ ویب سائٹ کا آغاز 2018 میں کروشیا کے کاروباری شخصیت متیجا بابیچ نے کیا تھا۔ ویب سائٹ نے اعلیٰ درجے کے ریستورانوں کے بجائے مقامی کھانوں پر توجہ مرکوز کرکے اپنی جگہ بنانے کی کوشش کی ۔
یہ ویب سائٹ اببہت ساری فہرستیں تشکیل دیتی ہے جو دنیا بھر کے کھانوں کا احاطہ کرتی ہیں جن میں بہترین پنیر ، بہترین ریستورنٹس اور بہترین پکوان شامل ہیں۔
ٹسٹ اٹلس آپ کو کسی شہر یا خطے کا نام تلاش کرنے کی بھی اجازت دیتا ہے اور پھر آپ کو علاقے کے بہترین پکوانوں اور ریسٹورنٹس کے نام فراہم کرتا ہے۔
ٹیسٹ اٹلس کے طریقہ کارپر اکثر ان ممالک کی طرف سے سوالات اٹھائے گئے ہیں جو محسوس کرتے ہیں کہ انہیں شامل نہیں کیا گیا۔ ملائیشیا کی ایک ویب سائٹ نے پلیٹ فارم سے کم اسکور کے بعد اس کے درجہ بندی کے نظام کے بارے میں استفسار کیا۔
ایک اور معاملے میں، ویب سائٹ کے بانی کو ویب سائٹ پر ایک مضمون لکھنا پڑا جب ایک فرانسیسی ٹی وی چینل نے ٹیسٹ اٹلس پر درجہ بندی میں دھاندلی کا الزام لگایا۔
متیجا بابیچ کا کہنا تھا کہ، ’ ٹیسٹ اٹلس کا طریقہ کار بظاہر سادہ ہے۔ صارفین ووٹ ڈالتے ہیں اور ہم ان کی گنتی کرکے درجہ بندی شائع کرتے ہیں۔’
ریسٹورنٹ کے معاملے میں ٹیسٹ اٹلس کا دعویٰ ہے کہ اس نے دنیا بھر میں 23,751 مقامات کے اعداد و شمارجمع کیے ہیں۔ اس کے بعد اسکورز کو حتمی فہرست میں شامل کیا گیا۔
پکوانوں کے لحاظ سے پلیٹ فارم نے اپنی کیٹلاگ میں 10،927 پکوانوں میں مجموعی طور پر 395،205 صارفین کی درجہ بندی جم کی اور تجزیہ کیا۔
تاہم، ٹیسٹ اٹلس کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ایک خاص طریقہ ہے کہ ووٹوں کو جعلی نہ بنایا جا سکے۔
ٹیسٹ اٹلس کے بانی کے مطابق، ’ہم اپنی ویب پر صارفین کا رویے ٹریک کرتے ہیں، تمام درجہ بندیوں کو ٹریک کرتے ہیں، اور یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آیا سسٹم اسے اوریجنل وزیٹر کے طور پر تسلیم کرتا ہے یا بوٹ کے طور پر، اسی بنیادپر اس کے ووٹوں کو تسلیم کیا جاتا ہے یا نظر انداز کیا جاتا ہے۔
ایک اور انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ یہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
یہ طریقہ کار اس بات پر بھی نظر رکھتا ہے کہ آیا کسی صارف کے ووٹ ایک ملک کی تعریف کرنے کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں لیکن دوسرے کو بدنام کرتے ہیں۔
بابیچ کا کہنا تھا کہ، ’اگر اتفاق نہ کرنے والوں کو لگتا ہے کہ کراچی میں کوئی اور جگہ زاہد نہاری سے بہتر ہے، اور آپ سمجھتے ہیں کہ ٹیسٹ اٹلس کی درجہ بندی کی گنتی کی جاتی ہے، تو فرق پیدا کرنے کا واحد طریقہ سائن اپ کرنا اور ووٹ ڈالنا ہے۔‘