بھارت کی سپریم کورٹ نے بلقیس بانو کیس میں اپنا ہی ایک حکم نامہ منسوخ کردیا ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ بلقیس سے اجتماعی زیادتی کے 11 ملزموں کی رہائی کے لیے عدالت کی آنکھوں میں دھول جھونکی گئی۔ گجرات حکومت کو ان ملزمان کی قبل از وقت رہائی کی اجازت دینے کا اختیار نہیں تھا۔
پیر کو سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے خصوصی رولنگ میں کہا کہ گجرات کی حکومت گیارہ ملزموں کو رہا کرنے کا اختیار نہیں رکھتی تھی کیونکہ یہ مقدمہ گجرات کی حدود نہیں چلایا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ ملزمان کی قبل از وقت رہائی کے خلاف بلقیس بانو کی درخواست بالکل درست تھی۔ مئی 2022 میں بلقیس بانو کیس کے 11 ملزموں کی قبل از وقت رہائی کے لیے عدالت کو دھوکا دیا گیا، حقائق کی پردہ پوشی کی گئی۔
یاد رہے کہ بھارت کی مغربی ریاست میں 2002 کے فسادات کے دوران احمد آباد میں بلقیس بانو سے اجتماعی زیادتی کی گئی تھی اور اس کے اہل خانہ کو شہید کردیا گیا تھا۔
11 ملزمان کی قبل از وقت رہائی کے خلاف بلقیس بانو کی درخواست کو درست قرار دیتے ہوئے جسٹس بی وی ناگا رتنا اور جسٹس اُجل بُھیان پر مبنی بینچ نے کہا کہ یہ مقدمہ چونکہ مہاراشٹر میں چلایا گیا تھا اس لیے گجرات ححکومت کو فیصؒہ سنانے کا اختیار نہیں تھا۔
عدالتِ عظمٰی کا کہنا تھا کہ گجرات حکومت کو 2002 کے حکم نامے پر نظر ثانی کی درخواست دائر کرنی چاہیے تھی جس میں وہ یہ تسلیم کرتی کہ وہ فیصلہ سنانے کے اختیار کی حامل نہیں۔
عدالتی رولنگ کے مطابق گجرات حکومت کے جاری کردہ حکم نامے میں اہلیت کا فقدان تھا۔ مجرموں کو وہی ریاست رہا کرسکتی ہے جہاں مقدمہ چلایا گیا ہو۔ عدالت کہنا تھا کہ نتائج کی پروا کیے بغیر قانون کی بالا دستی ہر حال میں یقینی بنائی جانی چاہیے۔ ممکنہ نتائج سے خوفزدہ ہوکر کوئی بھی فیصلہ تبدیل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ایسا کرنے سے انصاف کی فراہمی ممکن نہیں ہوسکتی۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ جسے مجرمانہ سرگرمی کا نشانہ بنایا گیا ہو اس کے حقوق اہمیت رکھتے ہیں۔ معاشرے میں ان کی عمومی حیثیت خواہ کچھ ہو، خواتین کا ہر حال میں احترام کیا جانا چاہیے۔ کیا خواتین کے خلاف سنگین جرائم قبل از وقت رہائی سمیت کسی بھی رعایت کی اجازت دیتے ہیں؟ جسٹس ناگا رتنا نے کہا کہ قانونی کی حکمرانی یقینی نہ بنائی جائے تو ایسے ہی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
اپنے ہی پلیٹ فارم سے سابق جج اجے رستوگی کے جاری کردہ فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ ملزمان کو قبل از وقت رہائی کے لیے گجرات حکومت سے اپیل کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے تھی۔ بہت سے شواہد مسخ کرکے یا چھپاکر عدالت کو گمراہ کیا گیا اس لیے ملزمان کی قبل از وقت رہائی کے لیے حاصل کی جانے والی اجازت محض آنکھوں میں دھول جھونکنے کا معاملہ تھا۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ ستمبر میں اس کیس کی سماعت کے دوران یہ سوال اٹھایا تھا کہ ملزمان کو قبل از وقت رہائی کی اپیل کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے یا نہیں۔
بلقیس بانو کیس میں کچھ مدت پہلے کے دلائل کے دوران سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے تھے کہ ریاستی حکومتوں کو ملزمان کو اصلاح کی غرض سے قبل از وقت رہائی کی اجازت دینے کے معاملے میں امتیازی سلوک روا نہیں رکھنا چایے۔ اگر قبل از وقت رہائی سے ملزمان کو اصلاح کا موقع ملتا ہے اور وہ معاشرے میں دوبارہ ڈھنگ سے اپنے لیے مطابقت پیدا کرسکتے ہیں تو پھر یہ حق تمام مجرموں کو ملنا چاہیے۔