بلوچستان ہائی کورٹ کے قائم کردہ الیکشن ٹریبونل نے سابق وزیر اعلیٰ نواب ثناءاللہ خان زہری کے کاغذات نامزدگی کے خلاف دائر اپیل خارج کردی ہے، جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے این اے 264 سے امیدوار نوابزادہ جمال رئیسانی کے کاغذات نامزدگی منظوری کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا ہے۔
وکیل درخواست گزار نے اعتراض عائد کیا تھا کہ جمال رئیسانی کا ووٹ رجسٹر نہیں ہے، جمال رئیسانی نگراں وزیر کے طور پر کابینہ کا حصہ تھے۔
جس پر جسٹس عامر رانا نے کاغذات نامزدگی منظوری کا ریٹرننگ افسر کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
گزشتہ روز سابق نگراں وزیر کھیل جمال رئیسانی کا کہنا تھا کہ بلوچستان ملک دشمن عناصر کی لگائی آگ میں جل رہا ہے، کالعدم تنظیموں کو کس نے اجازت دی کہ ہمارے پیاروں کو شہید کریں۔
نگراں حکومت میں 25 سال کی عمر میں وزارت کا حلف اٹھانے کے بعد نوابزادہ جمال رئیسانی بلوچستان کے سب سے کم عمر وزیر بن گئے تھے، جنہیں محکمہ کھیل، امور نوجوانان اور ثقافت کا قلمدان سونپا گیا تھا۔
جمال رئیسانی سابق گورنر بلوچستان و چیف آف سراوان نواب غوث بخش رئیسانی کے پوتے اور سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی اور سابق سینیٹر حاجی لشکری رئیسانی کے بھتیجے ہیں۔
جمال خان رئیسانی میر سراج رئیسانی کے صاحب زادے ہیں، جنہیں 12 جولائی 2018 کو ضلع مستونگ کے علاقے درنگڑھ میں ایک کارنر میٹنگ کے دوران خودکش دھماکے میں شہید کردیا گیا تھا۔
سراج رئیسانی کی شہادت کے بعد جمال رئیسانی نے عملی سیاست میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔
نومبر 2023 میں جمال رئیسانی نے کہا تھا کہ وہ جلد اپنے نگراں وزیر برائے کھیل، ثقافت اور امور نوجوانان کے عہدے سے مستعفی ہو کر عام انتخابات میں حصہ لیں گے کیونکہ نگران حکومت میں اختیارات محدود ہونے کی وجہ سے عوام کی خدمت اس انداز میں نہیں کی جاسکتی جس طرح منتخب حکومت میں کی جا سکتی ہے۔
دوسری جانب لیکشن ٹریبونل نے سابق وزیر اعلیٰ نواب ثناءاللہ خان زہری کے کاغذات نامزدگی کے خلاف دائر اپیل خارج کردی ہے، ہے سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان کے خلاف اپیل میں اقامہ اور بجلی کے بل کو جواز بناکر کاغذات نامزدگی کی منظوری کو چیلنج کیا گیا تھا۔
الیکشن ٹریبونل نے سردار اختر مینگل کو دیگر تینوں حلقوں سے انتخاب لڑنے کی اجازت دیدی، ان کی خضدار اور قلات سے قومی اسمبلی جبکہ وڈھ سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر اپیلیں منظور کی گئیں۔