برطانوی فوجی نے سابق افغان اہلکار کو انگلستان میں گھر خرید دیا۔ برطانوی فوج کے رائل الیکٹریکل اینڈ مکینیکل انجینئرز کارپوریشن (آر ای ایم ای) کے ایک حصے کے طور پر افغانستان میں تعینات مسٹر ڈائٹرل نے کہا ہے کہ برطانوی افواج کی حمایت کی وجہ سے سابق افغان اہلکاروں کو اپنا ملک چھوڑنا پڑا۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق افغانستان میں تعینات برطانوی فوجی جیمز ڈائٹرل نے 2010 میں افغان فورسز میں مترجم کے طور پر کام کیا تھا۔ 2021 ء میں افغان حکومت کے ڈرامائی اور تیزی سے خاتمے کے بعد ڈائٹرل نے اپنے سابق ساتھی کو ملک سے باہر سمرسیٹ منتقل کرنے میں مدد کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ مجھے پیغامات بھیج رہے تھے کہ ’ارے، مجھے واقعی مدد کی ضرورت ہے‘۔
برطانوی فوج کے رائل الیکٹریکل اینڈ مکینیکل انجینئرز کارپوریشن (آر ای ایم ای) کے ایک حصے کے طور پر افغانستان میں تعینات مسٹر ڈائٹرل نے کہا کہ ان کی پہلی دوستی اس افغان شخص سے اس وقت ہوئی جب وہ اپنے مترجم کے طور پر کام کر رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت ان کی انگریزی کا کوئی وجود نہیں تھا لیکن جب بھی ہمیں زمینی سطح پر کسی بھی چیز سے نمٹنا پڑتا تو میں ان کے اور ہمارے برطانوی فوجیوں کے درمیان ترجمہ کر لیتا تھا۔
یاد رہے کہ برطانوی حکومت کی جانب سے اپریل 2021 میں افغان ری لوکیشنز اینڈ اسسٹنس پالیسی (اے آر اے پی) کا آغاز کیا گیا تھا اور اس سال کے آخر میں مقامی حکام سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ برطانوی فوج کے ساتھ مترجم کے طور پر کام کرنے والے افغان اہلکاروں کے ساتھ خطرے سے دوچار شہریوں کی مدد میں اضافہ کریں۔
اپنے دوست کی جانب سے مدد طلب کرنے کے بعد مسٹر ڈائٹرل کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہر ممکن کوشش کرنا اپنا مشن سمجھا ، یہاں تک کہ دیگر فوجیوں کے ساتھ بھی رابطے میں رہا جن کے ساتھ وہ پہلے کام کر چکے تھے۔
ڈائٹرل کا کہنا تھا کہ انہیں اسپیشل فورسز میں کام کرنے والے ایک شخص کے ذریعے پتہ چلا کہ پیراشوٹ رجمنٹ کو باہر لے جایا جا رہا ہے۔
اس کے بعد ان سے کہا گیا کہ وہ اپنے دوست کو کابل ایئرپورٹ کے قریب بیرن ہوٹل لے جائیں جہاں ان کی دستاویزات پر کارروائی کی جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد مجھے ہیتھرو ایئرپورٹ پر ان کی لوکیشن کے اسکرین شاٹ کے ساتھ ایک پیغام موصول ہوا۔
اپنے دوست کی برطانیہ آمد پر ڈائٹرل نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ واقعی مزید مدد کرنا چاہتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’میرے پاس یہ پیسے ایک بینک اکاؤنٹ میں تھے اور میں نے سوچا، کہ کیا میں گھر خرید سکتا ہوں۔ لیکن اس میں کچھ وقت لگا لیکن مجھے ایک جائیداد مل گئی۔
مسٹر ڈائٹرل کے خریدے ہوئے گھر میں ان کے دوست اب اپنے خاندان کے ساتھ کاؤنٹی میں آباد ہیں۔
ڈیٹرل کا کہنا تھا کہ ’جب میں 2010 میں ان سے پہلی بار ملا تھا تو میں نے ایک بار بھی یقین نہیں کیا تھا کہ اب ہم وہاں ہوں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ ملک بھر میں ایسے بہت سے لوگ نہیں ہیں جو پناہ گزینوں کو رہائش فراہم کرنے میں اپنا وقت اور پیسہ خرچ کرنے کے معاملے میں اس حد تک چلے گئے ہوں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم نے انہیں ایک ایسی پوزیشن پر کھڑا کر دیا ہے جہاں ان کی اپنی کوئی غلطی نہیں تھی، انہیں برطانوی افواج کی حمایت کی وجہ سے اپنا ملک چھوڑنا پڑا۔‘