جرمنی میں آباد یہودیوں کو یہ بات پسند نہیں کہ ان کا ملک اسرائیل پر کچھ زیادہ ہی مہربان ہے۔ وہ غزہ پر حملوں میں فلسطینیوں کی بہت بڑے پیمانے پر شہادت کی مذمت کرتے ہوئے جرمن حکومت سے ایسے اقدامات چاہتے ہیں جن سے اسرائیل کی حوصلہ شکنی ہو۔
غزہ میں حماس کے خلاف کارروائی کے نام پر شہریوں کو نشانہ بنانے اور انہیں موت کے گھاٹ اتارنے پر جرمنی میں دوسری کمیونٹیز کے ساتھ ساتھ یہودی بھی میدان میں نکلے ہیں۔
جرمن یہودی چاہتے ہیں کہ اسرائیلی فوج کی انسانیت سوز کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے جرمن حکومت اسرائیل کی غیر معمولی حمایت ترک کردے۔
غزہ کے خلاف اسرائیلی کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے جب جرمنی میں یہودیوں نے چند دوسرے ممالک کی معروف شخصیات کے ساتھ مل کر احتجاج کیا تو اُن پر یہودیوں کے خلاف نفرت پھیلانے کا الزام عائد کردیا گیا۔
جرمن پولیس اور خفیہ اداروں نے کئی ہفتوں تک ان سے پوچھ گچھ کی ہے اور ان کی نقل و حرکت محدود کرتے ہوئے بھرپور نگرانی کی جارہی ہے۔
تین ماہ سے جن شخصیات سے پوچھ گچھ کی جارہی ہے ان میں بھارت کا ایک شاعر، ایک آسٹریلوی ماہرِ سیاسیات،ائرلینڈ کے لوک فنکاروں کا ایک گروپ، ایک برطانوی ماہرِ تعمیرات، بنگلہ دیش کا ایک فوٹوگرافر، دوسری جنگِ عظیم میں یہودیوں کی بہت بڑے پیمانے پر ہلاکت سے متعلق معاملات کا امریکی ماہر، جنوبی امریکہ کے ملک چلی کا ایک کمپوزر، آسٹریا کا ایک اسرائیلی نژاد ڈراما نگار، ایک ولندیزی فٹبالر، جنوبی امریکا ایک مصور، جرمنی کا نائجیریا نژاد صحافی، ایک فلسطینی ناول نگار اور امریکی سینیٹر بینی سینڈرز شامل ہیں۔ ان میں بیشتر یہودی ہیں۔