سینیٹ میں الیکشن کے التوا کی قرارداد پیش کرنے والے سینیٹر دلاور خان کا کہنا ہے کہ انتخابات ملتوی کرانے کی قرار داد پیش کرنے کے لیے مجھے کسی سے اشارہ نہیں ملا، اگر اشاروں کی بات ہوتی تو 2018 میں میرا بھائی اور بیٹا جیتا ہوا الیکشن نہ ہارتے۔
مردان پریس کلب میں صحافیوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر دلاور خان کا کہنا ہے کہ انتخابات ملتوی کرانے کی قرار داد پیش کرنے کے لیے مجھے کسی سے اشارہ نہیں ملا، اگر کسی سے تعاون نہیں کیا تو کسی سے بھیک بھی نہیں مانگا، اگر اشاروں کی بات ہوتی تو 2018 میں میرا بھائی اور بیٹا جیتا ہوا الیکشن نہ ہارتے۔
سینیٹر دلاور خان نے کہا کہ سینیٹ میں ہمارے 6 ممبران کی آزاد گروپ ہے، سینیٹر ہدایت اللہ، سینیٹر ہلال رحمان، سینیٹر احمد خان، سینیٹر نصیب اللہ ابازئی، بابر کھودا اور ایک میں ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سینیٹ میں قرارداد پیش کرنے کے متعلق ان کا مزید کہنا تھا کہ گوادر کے سینیٹر نے مجھے کہا کہ موجودہ دہشت گردی کے حالات میں ہم الیکشن کمپین نہیں کرسکتے، جے یو آئی سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بھی کہا کہ دہشت گردی کی وجہ سے اپنے علاقوں میں الیکشن کمپین نہیں کرسکتے، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے بعض علاقوں برفباری کی وجہ سے بھی انتخابی مہم نہیں چلا سکتے۔
سینٹر دلاور خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بعض افراد کورم کے حوالے سے کہتے ہیں کہ کورم پورا نہیں تھا، قانون کے مطابق اگر ایک رکن بھی موجود ہوں اور کوئی اعتراض نہ کریں تو وہ بھی اپنا مسئلہ بیان کرسکتا ہے، ہم نے چئیرمین سینیٹ کو درخواست کی جس نے منظور کی، سینیٹ میں موجود تمام سینیٹر نے اس پر کھلے دل سے بات کی۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے سینیٹر بہرہ مند تنگی نے بھی قرارداد کے حق میں بات کی، اگر کوئی اس پر میرے ساتھ ریفرنڈم کرنا چاہتے ہیں تو میں اس کے لیے بھی تیار ہوں، اس وقت سینیٹ میں کئی دیگر کمیٹیوں کے سینیٹر موجود تھے تو انہوں نے اس پر کوئی بات نہیں کی، اگر دیگر موجود کمیٹیوں کے سینیٹر اس کی بروقت مخالفت کرتے تو وہ کثرت رائے سے مسترد ہوجاتا۔
واضح رہے کہ سینیٹ نے گزشتہ روز 8 فروری 2024 کے انتخابات ملتوی کروانے کی قرارداد منظور کی ،ایوان میں صرف 14 سینیٹرز موجود تھے، آزاد سینیٹر دلاور خان نے قرارداد پیش کی تھی۔
مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر افنان اللّٰہ اور نگراں حکومت کی جانب سے وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے قرارداد کی مخالفت کی تھی جبکہ ق لیگ کے سینیٹر کامل علی آغا نے قرارداد کی حمایت کی تھی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر بہرہ مند تنگی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے گردیپ سنگھ نے خاموشی اختیار کی تھی۔
سینیٹ میں کورم پورا نہیں تھا، قرارداد پیش کرتے وقت صرف 14 سینیٹر موجود تھے، پیپلز پارٹی کے سینیٹر بہرہ مند تنگی نے نہ قرارداد کی مخالفت کی اور نہ کورم کی نشاندہی کی تھی۔