برطانیہ میں ورچوئل رئیلٹی (VR) گیم میں مبینہ ریپ کا پہلا کیس سامنے آگیا، 16 سالہ لڑکی کی جانب سے ’اجتماعی زیادتی‘ کا نشانہ بنائے جانے کے اس دعویٰ کی تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔
لڑکی مبینہ طور پر ورچوئل رئیلٹی ہیڈسیٹ پہنے ہوئے میٹورز میں گیم کھیل رہی تھی جب اس کے اوتار (ڈیجیٹل کردار) پر کئی لوگوں نے حملہ کرتے ہوئے اسے مبینہ زیادتی کا نشانہ بنایا۔
سینئر پولیس افسر کے مطابق مذکورہ کیس منفرد نوعیت کے باعث قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے بے شمار چیلنجز کا باعث ہے کیونکہ ابھی تک ایسے ورچوئل جرائم کیلئے کوئی قانون سازی موجود نہیں ہے۔
معاملے کی تحقیقات کرنے والے افسران کا کہنا ہے کہ نوجوان لڑکی بالکل ایسے ہی شدید جذباتی و نفسیاتی صدمے سے دوچار ہے جیسے کہ حقیقی دنیا میں عصمت دری کا شکارخواتین محسوس کرتی ہیں۔
فی الحال یہ واضح نہیں ہے کہ جب مبینہ حملہ کیا گیا تو لڑکی کون سا کھیل کھیل رہی تھی، میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ کوئی آن لائن گیم نہیں ہے جہاں بالغ کھلاڑیوں کا مقصد بچوں کی عصمت دری کرنا ہے۔
یہ سوال کہ کیا ورچوئل ریپ واقعی ’ریپ‘ ہے، کم از کم 1993 سے شروع ہوتا ہےجب ولیج وائس نے جولین ڈیبل کا ایک مضمون شائع کیا تھا جس میں ”سائبر اسپیس میں ریپ“ کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ مضمون میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح ورچوئل کمیونٹی میں جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والے اوتاروں کے پیچھے موجود لوگ جسمانی عصمت دری کے متاثرین کی طرح جذبات محسوس کرتے ہیں۔
معاملے سے واقف سینئر پولیس افسر کے مطابق متاثرہ شخص پر جذباتی اور نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو کسی بھی جسمانی چوٹ کے مقابلے میں طویل مدتی ہوتے ہیں۔میٹاورس تجربے کا شاندار معیار بچے کے لیے یہ اور بھی مشکل بنا دیتا کہ وہ اس حوالے سے فرق کرسکے۔
بچوں اور نوعمرافراد کی حفاظت کی بات کی جائے تو ’میٹا‘ کا ٹریک ریکارڈ اس حوالے سے کوئی اچھا ریکارڈ نہیں ہے۔
لہٰذا جب پولیس کے لیے اس معاملے کی تحقیقات کرنا ضروری ہے – عدالتیں مبینہ مجرموں کے لئے مناسب سزا کا فیصلہ کریں – میٹا کے لئے جوابدہ ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔
سال 2021 میں وسل بلور فرانسس ہوگن نے انکشاف کیا کہ فیس بک کی اپنی اندرونی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح انسٹاگرام کا استعمال نوعمر لڑکیوں کے اعتماد اور جسمانی امیج پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ گزشتہ سال اکتوبر میں 33 اٹارنی جنرلز پر مشتمل دو طرفہ اتحاد نے کیلیفورنیا میں میٹا کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا، جس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ فیس بک اور انسٹاگرام نوجوانوں کی ذہنی صحت کے بحران کے ذمہ دار ہیں۔
پولیس کے ایک تفتیش کار نے ڈیلی میل کو بتایا کہ میٹاورس پہلے ہی جنسی جرائم سے بھرا ہوا ہے۔ میٹا گیم ’ہورائزن ورلڈز‘ مبینہ طور پر متعدد جنسی حملوں کی جگہ رہی ہے۔ 2022 میں ماہر نفسیات نینا جین پٹیل نے ہورائزن وینیوز (اب ہورائزن ورلڈز) کے حوالے سے کہا تھا کہ جسمانی دنیا کے برعکس، میٹاورس میں واضح اور قابل نفاذ قواعد کا فقدان ہے۔
نیویارک پوسٹ کے مطابق صارفین کی ایک بڑی تعداد نے اس معاملے کو کڑی کسوٹی پر پرکھا ہے۔ کئی نے سوالات اٹھائے کہ کیا واقعی یہ عصمت دری ہے؟
نیویارک پوسٹ کی اس معاملے سے متعلق انسٹاگرام پوسٹ پر تبصروں میں کہا گیا کہ ، ’کیا وہ اسے بند نہیں کر سکتی تھی؟‘ ۔۔۔۔ ’کیا ہم حقیقی زندگی کے جرائم پر توجہ مرکوز کر سکتے ہیں؟‘
ایک شخص نے طنزیہ انداز میں لکھا کہ ’میں جنگی ویڈیو گیم کال آف ڈیوٹی میں مارا گیا تھا، اپنے قاتل کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا انتظارکررہا تھا۔‘
میٹا کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ کہا میٹا ورس میں صارفین کے پاس ایک خودکارتحفظ ہوتا ہے جسے ’پرسنل باؤنڈری‘ کہا جاتا ہے، جو ان لوگوں کو آپ سے چند فٹ دوررکھتا ہے جنہیں آپ نہیں جانتے، لیکن بظاہر یہ فیچر صارفین کو نقصان سے بچانے کے لیے خاطر خواہ کام نہیں کر رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ برطانیہ کے نئے آن لائن سیفٹی بل کے ایک لڑکی کی عصمت دری کا یہ انوکھا واقعہ اہم امتحان ثابت ہو گا، جو بچوں اور بالغوں کو آن لائن تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایک سال پرانے قوانین کا مجموعہ ہے۔
نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ بچوں کی آئندہ نسل اپنی زندگی کے دوران ورچوئل رئیلٹی میں ایک اندازے کے مطابق 10 سال گزارے گی جو ایک دن میں تقریبا تین گھنٹے کا دورانیہ بنتا ہے۔