سمیع اللہ بلوچ بمقابلہ عبدالکریم نوشیروانی سپریم کورٹ آف پاکستان کا ایک تاریخی فیصلہ ہے جس میں عدالت نے متفقہ طور پر قرار دیا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت انتخابی نااہلی تاحیات ہے۔
2017 میں پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ نے ملک کی سیاسی تاریخ کا رخ بدل کر رکھ دینے والے تاریخی فیصلے میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما کو نااہل قرار دیا تھا۔ تاہم اس فیصلے کے وقت یہ واضح نہیں تھا کہ نااہلی کی مدت کیا ہوگی۔
2018 میں سپریم کورٹ نے سمیع اللہ بلوچ کیس میں ایک اور (PLD 2018 SC 405) فیصلہ دیا جس میں یہ قرار دیا گیا کہ آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت اگر کسی کو نااہل قرار دیا جائے گا تو اس کی نااہلیت تاحیات ہوگی۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے یہ فیصلہ متفقہ طور پر جاری کیا تھا۔
پاناما پیپرز کیس میں آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیے جانے کے بعد نواز شریف کو غیر معینہ مدت کے لیے سرکاری عہدے پر فائز رہنے سے روک دیا گیا تھا۔ جب کہ اس وقت تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کو بھی سپریم کورٹ کے ایک اور بینچ نے اسی شق کے تحت نااہل قرار دیا تھا۔
اس وقت جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات ہے لیکن میرے کیس میں اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔
سمیع اللہ بلوچ کیس میں 13 اپریل 2018 کو فیصلہ دیتے وقت اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے فیصلہ سنائے جانے سے قبل ریمارکس دیے کہ عوام اچھے کردار کے رہنماؤں کے مستحق ہیں۔
جس کے بعد جسٹس عمرعطا بندیال نے فیصلہ پڑھ کرسنایا، جس میں کہا گیا تھا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت کسی بھی رکن پارلیمنٹ یا سرکاری ملازم کی نااہلی مستقل ہوگی۔ ایسا شخص الیکشن نہیں لڑ سکتا یا پارلیمنٹ کا رکن نہیں بن سکتا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت پارلیمنٹ کے انتخابات کے لیے امیدوار کی اہلیت پر عائد پابندی ایماندار، راست باز، سچے، قابل اعتماد اور دانشمند منتخب نمائندوں کے لیے عوامی ضروریات اور مفاد عامہ کو پورا کرتی ہے۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت انتخابات کے لیے امیدوار کی مستقل نااہلی آئین کے آرٹیکل 17 (2) کے تحت اس کے بنیادی حق کو من مانی، حد سے زیادہ یا غیر معقول حد سے کم کرنا نہیں ہے، بلکہ امیدوار کو خود کو بے گناہ ثابت کرنے کے لئے منصفانہ موقع فراہم کرتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت اہلیت پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے پیدا ہونے والی نااہلی ایک مستقل پابندی عائد کرتی ہے، جو اس وقت تک نافذ العمل رہتی ہے جب تک آئین کے آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت کسی ایک مجرمانہ طرز عمل کے نتیجے کی حمایت کرنے والا اعلانیہ فیصلہ نافذ رہتا ہے۔
عدالت نے یہ بھی ہدایت کی کہ آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت جعلی ڈگری رکھنے پر نااہلی کی مدت کو چیلنج کرنے والی تمام 17 اپیلوں اور درخواستوں کو ”ہر معاملے کے متعلقہ حقائق اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس فیصلے میں طے شدہ قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کے لئے مناسب بینچوں کے سامنے مقرر کیا جائے“۔
فیصلے میں اضافی نوٹ لکھنے والے بینچ کے رکن جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ آئین کے آرٹیکل 63 کے بعض ذیلی آرٹیکلز میں نااہلی کی مدت کا تعین کیا گیا تھا، لیکن آرٹیکل 62 (1) (ایف) میں ایسی شق نہیں ملتی کیونکہ آئین سازوں نے ایسا نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
درخواست گزاروں کے کچھ وکیلوں کی جانب سے آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے نتیجے میں تاحیات پابندی کے بارے میں تشویش کا جواب دیتے ہوئے جسٹس سعید نے کہا کہ اس طرح کے دلائل عدالت کے سامنے پیش کرنے کے بجائے پارلیمنٹ میں ہونے کے لئے زیادہ مناسب ہیں۔
انہوں نے لکھا کہ اس معاملے کا یہ پہلو ستم ظریفی ہے کیونکہ ہم سے پہلے کئی افراد کسی نہ کسی وقت مجلس شوریٰ کے رکن تھے یا رہ چکے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ انہوں نے ترامیم منظور کی ہوں جو اب ان کی راہ میں حائل ہیں۔
جسٹس عظمت شیخ نے زور دے کر کہا کہ وہ صرف آئین کی تشریح کر سکتے ہیں، اس میں ترمیم یا تبدیلی نہیں کر سکتے۔
سپریم کورٹ میں حالیہ دنوں تاحیات نااہلی سے متعلق کیس زیر بحث ہے جس میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 میں نااہلی کی مدت درج نہیں۔ لیکن چونکہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں سپریم کورٹ اس مدت کا تعین کر چکی ہے لہٰذا نواز شریف اور جہانگیر ترین کی نااہلیت اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک سمیع اللہ بلوچ کیس کا فیصلہ موجود ہے۔