بنگلہ دیش میں عام انتخابات میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے فوج کو تعینات کر دیا گیا ہے۔
رائٹرز کے مطابق بنگلہ دیش میں قومی انتخابات سے قبل تشدد کے خدشے کے پیش نظر بدھ کے روز ملک بھر میں فوج تعینات کر دی گئی ہے جس کا مرکزی اپوزیشن جماعت بائیکاٹ کر رہی ہے۔
فوجیوں نے بکتر بند گاڑیوں میں دارالحکومت ڈھاکا میں قائم عارضی کیمپوں کا سفر کیا تاکہ سول انتظامیہ کو امن و سلامتی برقرار رکھنے میں مدد مل سکے۔
بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) نے اتوار کو ہونے والے انتخابات کا بائیکاٹ کیا ہے کیونکہ وزیر اعظم شیخ حسینہ نے ان کے استعفے کے مطالبے کو ماننے سے انکار کر دیا ہے اور انتخابات کو چلانے کے لئے کسی غیر جانبدار اتھارٹی کو اقتدار سونپ دیا ہے۔
حسینہ واجد بار بار بی این پی پر حکومت مخالف مظاہروں کو بھڑکانے کا الزام عائد کرتی رہی ہیں جو اکتوبر کے اواخر سے ڈھاکا میں جاری ہیں اور جس میں کم از کم 10 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ فوجی صرف پولنگ افسران کی درخواست پر کارروائی کریں گے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ بحریہ کو دو ساحلی اضلاع میں تعینات کیا گیا ہے اور فضائیہ دور دراز پہاڑی علاقوں میں پولنگ اسٹیشنوں تک ہیلی کاپٹر کی مدد فراہم کرے گی۔
لوگوں کو خدشہ ہے کہ گزشتہ دو مہینوں میں بنگلہ دیش میں جو تشدد ہوا ہے وہ انتخابات کے بعد واپس آ سکتا ہے۔
ڈھاکا میں رکشہ چلانے والے 48 سالہ عبدالحمید نے کہا کہ مجھے اس بات کی پرواہ نہیں کہ کون سی پارٹی اقتدار میں ہے، میں صرف کچھ امن چاہتا ہوں تاکہ کما سکوں اور اپنی فیملی کا پیٹ بھر سکوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ انتخابات کے بعد امن قائم ہوگا، اگر سیاسی افراتفری ہے تو ہمارے لیے زندہ رہنا مشکل ہے، یہ کسی ملک کو چلانے کا طریقہ نہیں ہے، ہم اپنے مستقبل کے بارے میں بہت الجھن میں ہیں۔
حسینہ واجد جنہوں نے 2009 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے سخت کنٹرول برقرار رکھا ہوا ہے، ان پر آمریت، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، اظہار رائے کی آزادی پر کریک ڈاؤن کرنے اور اپنے ناقدین کو جیل میں بھیجتے ہوئے اختلاف رائے کو دبانے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔
ان کی سب سے بڑی حریف اور 2 بار وزیر اعظم رہنے والی بی این پی رہنما خالدہ ضیاء بدعنوانی کے الزامات کے تحت گھروں میں نظربند ہیں، ان کے بیٹے اور بی این پی کے قائم مقام چیئرمین طارق رحمان جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ ان کے خلاف کئی الزامات عائد کیے گئے تھے جن سے وہ انکار کرتے ہیں۔
حسینہ واجد کی حکومت پر مغربی ممالک کی جانب سے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانے کا دباؤ ہے۔