روس اور یوکرین نے متحدہ عرب امارات کی وساطت سے سیکڑوں جنگی قیدیوں کا تبادلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے مذاکرات کئی دن جاری رہے۔
یوکرین نے 248 روسی جنگی قیدی رہا کیے جن کے بدلے روس نے یوکرین کے 230 جنگی قیدی متعلقہ حکام کے حوالے کیے۔
جنگی قیدیوں کا یہ تبادلہ ایسے وقت کیا گیا ہے جب دونوں ممالک کے درمیان جنگ کے مختلف محاذوں پر شدید لڑائی ہو رہی ہے۔
روس نے یوکرین کو میزائلوں کے علاوہ ڈرونز سے بھی نشانے پر لے رکھا ہے۔ دوسری طرف یوکرین بھی کئی محاذوں پر منہ توڑ جواب دینے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔
امریکہ کی طرف سے یوکرین کے لیے فوجی امداد کا گرین سگنل ملنے کے بعد سے یوکرینی فوجیوں کے حوصلے بلند ہیں۔
روس اور یوکرین کے فوجی حکام نے ایک دوسرے کے میزائل اور ڈرونز مار گرانے کے دعوے کیے ہیں۔ روسی سرحد کے نزدیک بیلگوروڈ قصبے کے نزدیک روس نے یوکرین کے بارہ میزائل ناکام بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔
واضح رہے کہ یورپ میں یوکرین جنگ کے حوالے سے جوش و خروش ٹھنڈا پڑچکا ہے۔ یورپ کی بیشتر حکومتیں یوکرین میں جاری جنگ کے لیے مزید فنڈنگ کا اہتمام نہیں کر رہے۔
غزہ جنگ کا ذمہ دار امریکا ہے، اسرائیل مذاکرات سے قیدی واپس لے سکتا ہے، سربراہ حزب اللہ
برطانوی جریدے کے مطابق یورپی حکومتوں پر اپوزیشن کا غیر معمولی دبائو ہے۔ اپوزیشن جماعتیں کہتی ہیں کہ یوکرین کو روس سے نبرد آزما رہنے میں مدد دینے کے بجائے اپنے لوگوں کے حالات بہتر بنانے کو ہر صورت ترجیح دی جانی چاہیے۔
یورپ کی متعدد پارلیمنٹس میں اپوزیشن کے ارکان نے کھل کر کہا ہے کہ یوکرین کو دفاع کے لیے مزید فنڈز نہ دیئے جائیں کیونکہ ایسا کرنے سے روس کو یورپ کے مزید علاقوں پر حملے کرنے کا جواز مل سکتا ہے۔ ایسا ہوا تو جنگ وسعت بھی اختیار کرے گی اور طول بھی پکڑے گی۔