انتخابات سے قبل جنوبی ایشیا میں جعلی وڈیوز بہت بڑے پیمانے پر گردش کر رہی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومتیں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر گردش کرنے والی ان وڈیوز کی روک تھام کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر پارہیں۔
پاکستان میں 8 اکتوبر کو عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان جیل میں ہیں تاہم دسمبر میں مصنوعی ذہانت کے ذریعے تیار کی گئی امیج اور مصنوعی آواز کے ذریعے ان کا آن لائن خطاب ہوا۔ اس خطاب کو لاکھوں افراد نے لائیو سنا اور اس حوالے سے وڈیو کو 14 لاکھ افراد نے دیکھا۔
حکومت نے مصنوعی ذہانت کے حوالے سے قانون وضع کیا ہے تاہم ڈجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ گمراہ کن معاملات کی روک تھام کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جارہے۔ خواتین سمیت کسی کا بھی تحفظ یقینی بنانے کے لیے کام نہیں کیا جارہا۔
ڈجیٹل رائٹس فائونڈیشن کی شریک بانی نگہت داد کا کہنا ہے کہ انتخابات کے دوران گمراہ کن بیانات اور وڈیوز کی بھرمار کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں جمہوریت کو پروان چڑھانے والا ماحول متاثر ہوگا۔
نگہت داد کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی آن لائن پلیٹ فارمز پر گمراہی پھیلاکر ووٹرز کو طرزِ فکر و عمل بدلنے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنا ووٹ بینک مضبوط بنانے کے لیے اب سوشل میڈیا کا خوب سہارا لے رہی ہیں۔ میڈیا کے ذریعے جو کچھ بھی پیش کیا جاسکتا ہے وہ اس عمل کو مزید آسان بنادے گا۔
رواں سال پاکستان کے علاوہ بھارت، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا میں بھی عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ ایسے میں جعلی وڈیوز اور دیگر جعلی چیزوں کا سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلایا جانا خارج از امکان نہیں۔
بھارت میں بھی سیاست دان انتخابی مہم کے دوران استعمال کے لیے جعلی وڈیوز تیار کروا رہے ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے تیار کی جانے والی گمراہ کن وڈیوز اور دیگر آئٹم ان کا کام آسان بنادیں گے۔
جدید ترین ٹیکنالوجیز نے جعلی آڈیو اور وڈیو کلپس کے علاوہ تصویریں اور دیگر اشیا تیار کرنا بے حد آسان کردیا ہے۔ یہ معاملہ زیادہ پریشان کن، بلکہ خطرناک اس لیے ہے کہ یہ کہنا بھی بہت دشوار ہوگیا ہے کہ کیا اصلی ہے اور کیا نقلی۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی آواز میں علاقائی زبانوں کے گیتوں کی وڈیوز اور انڈونیشین صدارتی امیدوار پرابووو سبیانتو اور انیز باسویدن کی عربی میں گفتگو کی وڈیوز بھی وائرل ہوئی ہیں۔ یہ سب مصنوعی ذہانت کا کمال ہے۔
مودی سرکار نے جعلی وڈیو، آڈیو اور تصاویر کا نوٹس لیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت اور دیگر جدید ٹیکنالوجیز کی مدد سے لوگوں کو گمراہ کرنے والون سے سختی سے نمٹا جائے گا۔
بنگلہ دیش کے انتخابی ماحول میں بھی جعلی وڈیوز اور جعلی تصاویز پھیلائی جارہی ہیں۔ بعض خاتون امیدواروں کی اخلاق سوز جعلی تصاویر اور وڈیوز بھی سامنے آئی ہیں۔
جہانگیر نگر یونیورسٹی میں صحافت کے پروفیسر سعید الزماں کا کہنا ہے کہ حکومت نے چند ایک اقدامات کیے ہیں تاہم اب بھی جعلی وڈیوز اور آڈیوز پھیلائی جارہی ہیں۔ ان پر قابو پانا بظاہر ناممکن ہے۔
عالمی سطح پر جعلی وڈیوز اور تصاویر کا سراغ لگانے والی کمپنی ڈیپ میڈیا نے بتایا ہے ایک سال کے دوران دنیا بھر میں کم و بیش پانچ لاکھ جعلی وڈیوز وائرل ہوئیں۔ فیس بک کی مالک کمپنی میٹا، انسٹا گرام اور واٹس ایپ نے کہا ہے کہ وہ جعلی مواد کو ہر حال میں ڈیلیٹ کریں گی۔
یو ٹیوب کی ملکیت کی حامل کمپنی گوگل نے نومبر میں کہا تھا کہ جعلی مواد کا سراغ لگانے اور اسے ٹھکانے لگانے کے لیے اسے ماہرین کی ضرورت ہے۔ بھارت، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا نے جعلی مواد کا سراغ لگانے اور متعلقین کو سزا دینے سے متعلق قوانین منظور کیے ہیں تاہم حقیقی کامیابی بہت دور دکھائی دیتی ہے۔