سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کمیشن سے تمام مقدمات کی تفصیلات مانگ لیں اور آمنہ مسعود جنجوعہ کی درخواست پر وزارت داخلہ اور دفاع سے جواب بھی طلب کرلیا، عدالت نے اٹارنی جنرل سے تحریری یقین دہانی مانگ لی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آج کے بعد کسی کو نہیں اٹھایا جائے گا، 18 سال گزر گئے، سچائی جاننا آمنہ جنجوعہ کا حق ہے، اس کیس کو سنجیدگی سے لیا جائے۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے لاپتہ افراد سے متعلق درخواستوں پر سماعت کی، بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی شامل تھے۔
سماعت کے آغاز میں شعیب شاہین اور آمنہ مسعود جنجوعہ روسٹرم پر آئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے کیس میں بہت گہرائی اور تفصیل سے دلائل ہوچکے ہیں۔
شعیب شاہین نے عدالت کو بتایا کہ درخواست پر اعتراضات ختم کردیے تھے لیکن ابھی تک نمبر نہیں لگایا گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیس آگے بڑھائیں رجسٹرار اعتراضات کے خلاف تحریری آرڈر آج کردیں گے۔
جس کے بعد شعیب شاہین کی جانب سے لاپتہ افراد سے متعلق ماضی کے عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا گیا، انہوں نے کہا کہ ایجنسیوں کے کردار پر فیض آباد دھرنا کیس میں بھی تفصیل سے لکھا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فیض آباد دھرنا کیس سے لاپتہ افراد کا کیا تعلق ہے؟ جس پر شعیب شاہین نے کہا کہ لاپتہ افراد کا براہ راست ذکر نہیں، لیکن ایجنسیوں کے آئینی کردار کا ذکر موجود ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلے میں قانون کے مطابق احتجاج کے حق کی توثیق کی گئی ہے، کچھ دن پہلے مظاہرین کو روکا گیا تھا اس حوالے سے بتائیں۔
شعیب شاہین نے کہا کہ عدالت نے سڑکیں بند کرنے اور املاک کو نقصان پہنچانے پر کارروائی کا کہا تھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حیرت ہے آپ فیض آباد دھرنا کیس کا حوالہ دے رہے ہیں۔
شعیب شاہین نے جواب دیا کہ ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کرکام کرتا تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے، پہلے دن سے ہی فیض آباد دھرنا فیصلے کے ساتھ کھڑے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس سے پہلے ایک اور کیس تھا۔ ابصار عالم میڈیا پر بات کر رہے تھے، انہوں نے ہمت پکڑی اور اس عدالت میں آکر بات کی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ عمران ریاض کو عدالت بلائے تو وہ پیش ہونے کو تیار ہیں؟ جس پر شعیب شاہین نے کہا کہ پروٹیکشن فراہم کریں۔
چیف جسٹس نے کہا کیا ہم کسی کیلٸے کارپٹ بچھائیں گے، اگر کسی کو خدشات ہیں تو ایف آئی آر درج کرائیں، ہمارے پاس کوئی فوج کھڑی ہے جو پروٹیکشن دیں گے؟ آپ اس کو سیاسی اکھاڑا نہ بناٸیں۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ شیخ رشید نے آپ کو کیا کہا؟ دھرنا اور الیکشن کیس میں شیخ رشید عدالت آسکتے ہیں تو اس میں کیوں نہیں؟
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ جو اپنے لٸے بات نہیں کرسکتے وہ کسی کیلٸے کیا بات کریں گے۔
دوران سماعت وکیل شعیب شاہین نے مطیع اللہ جان کیس کا بھی حوالہ دیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کل آپ مطیع اللہ جان کا نام نہیں لے رہے تھے۔ اس وقت کی حکومت نے ذمہ داری لی تھی؟
شعیب شاہین نے جب کہا کہ اس وقت کی حکومت کی مداخلت سے ہی شاید وہ جلدی واپس آگئے۔ تو چیف جسٹس نے کہا کہ کریڈٹ نہ لیں وہ واقعہ کیمروں میں ریکارڈ ہوگیا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حیران ہوں اس کیس میں ایک بھی بندے کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا، یہ کیس دو منٹ میں حل ہو سکتا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یا تو ڈر لیں یا حکومتیں چلا لیں۔ یہ واحد لاپتہ افراد کا کیس تھا جوریکارڈ ہوگیا تھا۔
شعیب شاہین نے کہا کہ صحافی عمران ریاض کا واقعہ بھی ریکارڈ ہوگیا تھا، عمران ریاض نے کل مجھے کہا عدالت تحفظ دے تو میں آجاؤں گا۔
اس کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آمنہ مسعود جنجوعہ کو روسٹرم پر بلالیا۔
آمنہ جنجوعہ نے بتایا کہ میرے شوہر 2005 میں جبری گمشدہ ہوئے تھے، اس وقت چیف جسٹس افتخار چوہدری نے نوٹس لیا تھا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کی اس وقت کس کی حکومت تھی؟ جس پر آمنہ جنجوعہ نے جواب دیا کہ اس وقت پرویزمشرف کی حکومت تھی۔
آمنہ جنجوعہ نے بتایا کہ شوہر ٹریول ایجنسی کا کام کرتے ہیں، میرے شوہر کے خلاف کوئی الزام نہیں تھا، میرے شوہر کے والد ریٹائرڈ کرنل تھے جو مشرف کے سینئر تھے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ آپ کے شوہر کو کس وجہ سے اٹھایا گیا تھا؟ ریاست آپ کے شوہر کو کیوں اٹھائے گی یا تو کوئی دشمنی تھی، آپ کہہ رہی ہیں کہ وہ بزنس مین تھے میں سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کے کاروباری شوہر کا حکومت یا ریاست سے کیا تعلق تھا؟ ریاست کس وجہ سے آپ کے شوہر کو اٹھائے گی؟ پہلے وجہ سمجھ آئے کہ حکومت نے کیوں آپ کے شوہر کو اٹھایا ہوگا، کیا آپ کے شوہر مجاہدین کے حامی تھے یا کسی تنظیم کے رکن تھے؟
آمنہ جنجوعہ نے کہا کہ میرے شوہر سماجی کارکن بھی تھے ان کا اسپتال آج بھی چل رہا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی زمین کا مسئلہ بھی تھا تو بتائیں مجرم تک پہنچنے کے لیے کڑیاں جڑتی ہیں۔
آمنہ مسعود نے بتایا کہ لاپتہ افراد کمیشن نے میرے شوہر کو 2013 میں مردہ قرار دے دیا تھا، میرے شوہر دوست سے ملنے پشاور کیلئے نکلے لیکن پہنچے نہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ آپ کو کس پر شک ہے؟ غیر ریاستی عناصر بھی ہیں اور ایجنسیاں بھی۔
آمنہ مسعود جنجوعہ نے بتایا کہ کچھ رہا ہونے والوں نے بتایا کہ وہ سیکیورٹی ادارے کی کسٹڈی میں تھے، سال 2007 میں معلوم ہوا کہ میرے شوہر آئی ایس آئی کی تحویل میں ہیں۔
جسٹس علی مظہر نے سوال کیا کہ جے آئی ٹی بنی تو کیا آپ کبھی اس میں پیش ہوئی تھیں؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں جے آئی ٹی میں بےشمار بار پیش ہوئی، جس میں بتایا گیا بلوچستان میں طالبان جیسے شدت پسند گروہ نے مار دیا، مگر ہم نے قبول نہیں کیا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ لاپتہ افراد کا کمیشن کا سربراہ کون ہے؟ جس پر اٹارنی جرل نے بتایا کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کمیشن کے سربراہ ہیں، وہ سپریم کورٹ کے جج کے عہدے سے 2011 میں ریٹاٸرڈ ہوئے تھے۔
چیف جسٹس نے آمنہ جنجوعہ کو کہا کہ اب آپ ہمیں بتائیں ہم کیا کرسکتے ہیں؟ جس پر آمنہ جنجوعہ نے کہا کہ میرے شوہر کے والد نے مشرف اور متعلقہ حکام سے بھی ملاقات کی تھی، متعلقہ حکام نے کہا میرے شوہر میں کوئی دلچسپی نہیں انہیں کیوں پکڑا جائے گا۔
چیف جسٹس نے لاپتہ افراد کمیشن کے رجسٹرار کو روسٹرم پر بلا لیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا کمیشن صرف تنخواہیں ہی لیتا ہے یا کوٸی اور کام بھی کرتا ہے؟
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ ایک ماہ میں کتنے اجلاس ہوتے ہیں؟ کتنے لوگ بازیاب ہوتے ہیں؟ جس پر رجسٹرار کمیشن نے جواب دیا کہ اس ماہ 46 افراد بازیاب ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آج کل لوگ لاپتہ ہو رہے ہیں یا نہیں ؟ آپ کے پاس کیسز آ رہے ہیں؟ رجسٹرار کمیشن نے کہا کہ جی کمیشن کے پاس کیسز آ رہے ہیں، کیسز آنے کے بعد کمیشن جے آٸی ٹی بناتی ہے۔
اس موقع پر آمنہ جنجوعہ نے کہا کہ ہم لوگ لاپتہ کمیشن کے پاس گٸے ، ہم ان سے مطمن نہیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اعتزاز احسن صاحب آپ مطمئن ہیں اس کمیشن سے یا نہیں؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں بالکل مطمن نہیں ہوں، یہاں اعتزاز احسن سمیت کوٸی بھی لاپتہ افراد کے لیے قاٸم کمیشن سے مطمئن نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا کمیشن کے ارکان کو تنخواہ ملتی ہے؟ جس ہر رجسٹرار کمیشن نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ ججز کو عدالت عظمیٰ اور ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ ممبران کوعدالت عالیہ کے مطابق پیکج ملتا ہے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کیا کمیشن ممبران کو پنشن نہیں ملتی؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ پنشن الگ سے ملتی ہے اور بطور کمیشن تنخواہ الگ۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ لاپتہ افراد کمیشن 2011 میں بنا تھا اب تک اسے ہی توسیع دی جا رہی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ 136 لاپتہ افراد کے بارے میں یہ کمیشن صرف چھ ماہ کیلٸے بنایا گیا تھا۔
اس کے بعد چیف جسٹس نے وکیل فیصل صدیقی کو روسٹرم پر بلا لیا، جنہوں نے بتایا کہ 2010 میں پہلی بار یہ کمیشن جسٹس (ر) کمال منصور کی سربراہی میں بنا تھا۔
سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے تحریری یقین دہانی مانگ لی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آج کے بعد کسی کو نہیں اٹھایا جائے گا۔
جسٹس محمد مظہر نے کہا کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ ہم دوسری جے آئی ٹی بنائیں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کسی پر الزام نہیں لگا رہے مگر جاننا چاہتے ہیں حقیقت کیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل آئیں اور ان کے شوہر سے متعلق کوئی رپورٹ تو پیش کریں، اٹارنی جنرل صاحب سچ جاننا آمنہ مسعود جنجوعہ کا حق ہے۔
آمنہ جنجوعہ نے کہا کہ مشرف دور میں سب سے زیادہ لوگ لاپتا ہوئے، مشرف دور کے بعد پی پی، ن لیگ اور پی ٹی آئی دور میں بھی یہ چلتا رہا، آج کل مسنگ پرسنز کے کیسز سامنے آرہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جن کی بات شعیب شاہین کر رہے ہیں ہم ان کی بات نہیں کر رہے، ہم ان کی بات نہیں کر رہے جو خود واپس آگئے، ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ کوئی غائب ہے تو وہ سامنے آنا چاہئے، آج بھی غلط کام ہورہے ہیں تو ہم اسے روک سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بلوچستان کے مسنگ پرسنز کا معاملہ اور کے پی کا معاملہ الگ الگ ہے، لوگوں کو مذہبی اور لسانی بنیاد پر بھی قتل کیا جارہا ہے، مستونگ میں زیارت کیلئے ایران جانے والے 32 لوگوں کو بھی قتل کیا گیا، یہ کیا ذہنیت ہے، لوگوں کوقتل کرنے والوں کو کسی کا ڈروخوف نہیں، ابھی تو قانون سے بچ جائیں گے ان کو آخرت کا خوف نہیں۔
سپریم کورٹ نے وزارت داخلہ سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت منگل تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھواتے ہوئے کہا کہ عدالت صرف مسنگ پرسنز کے کیسز سنے گی، ذاتی نوعیت کےکیس نہیں سنیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اعتزاز احسن صاحب آپ کو بھی بتارہے ہیں ہم وہ والے کیسز نہیں دیکھیں گے، جو واپس آگئے ان کو جو نقصان ہوا وہ متعلقہ فورم جائیں، ہم صرف وہ کیسز سنیں گے جو لوگ اب بھی غائب ہیں۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ جرائم کا نیا طریقہ اپنایا جارہا ہے، لوگوں کو غائب کیا جارہا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یہ بات کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں، جس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ یہ عوامی نوعیت کامعاملہ ہے یہ چار لوگوں کا نہیں یہ زیادہ ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آج جوڈیشل کمیشن اجلاس ہے پشاور ہائیکورٹ کے ججز کے حوالے سے، آج مزید سماعت کرنا ممکن نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ رجسٹرار کمیشن کا دعویٰ ہے کہ ان کی وجہ سے کئی لوگ واپس آئے۔
اس دوران وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے احکامات کے خلاف دائر اپیلیں واپس لے لیں، عدالت نے وفاقی حکومت کی اپیلیں واپس لینے کی بنیاد پر خارج کردیں۔
اٹارنی جنرل نے عدالت میں بیان دیا کہ ہائیکورٹ کے احکامات پر عملدرآمد ہوچکا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پروڈکشن عملدرآمد نہیں ہوا تو کمیشن بتائے کیوں نہیں کیا گیا۔
بعدازاں عدالت نے کمیشن سے مقدمات کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے تمام پروڈکشن آرڈرز اٹارنی جنرل کو فراہم کرنے کی ہدایت بھی کردی جبکہ آمنہ مسعود کی درخواست پر وزارت داخلہ اور دفاع سے جواب مانگ لیا گیا۔