جاپانی دارالحکومت ٹوکیو کے ہنیڈا ایئر پورٹ پر دو طیاروں کے تصادم کے نتیجے میں لگنے والی آگ کے باوجود مسافر طیارے میں سوار تمام افراد کا بچ جانا معجزے سے کم نہیں۔
امریکی نشریاتی ادارے کے تجزیے کے مطابق جاپانی کوسٹ گارڈ کے طیارے میں سوار 8 رکنی عملے کے 5 افراد ہلاک ہوگئے۔ ایئر بس 350 میں سوار 379 مسافر اور عملے کے تمام افراد محفوظ رہے۔
تمام مسافروں اور عملے کے افراد کو زندہ نکال پانا جدید ترین سیفٹی رولز کے ساتھ جاپانی ایئر لائن کے اپنے سیفٹی کلچر کا بھی کمال ہے۔
برطانیہ کی گرینفیلڈ یونیورسٹی میں سیفٹی اینڈ ایکسیڈنٹ انویسٹی گیشن کے پروفیسر گراہم بریتھویٹ کہتے ہیں کہ طیارے میں جس طور آگ لگی تھی اسے دیکھتے ہوئے کسی کا زندہ بچ نکل پانا ناممکن دکھائی دیتا تھا۔
پروفیسر بریتھویٹ کا مزید کہنا تھا کہ میں نے ایئر لائنز کو جتنا پڑھا ہے اور جتنا جانتا ہوں اس کی بنیاد پر بلا خوفِ تردید کہہ سکتا ہوں کہ اس حادثے میں مسافروں کا زندہ نکل آنا انتہائی حیرت انگیز تھا تاہم جاپانی ریسکیو ورکرز نے جس قدر محنت کی اور اپنی جان بھی دائو پر لگائی اسے دیکھتے ہوئے یہ کسی بھی درجے میں زیادہ حیرت انگیز نہ تھا۔
چالیس سال قبل ایک حادثے نے جاپانی ایئر لائن کو سیفٹی کے حوالے سے غیر معمولی کلچر اپنانے کی تحریک دی۔
12 اگست 1985 کو ٹوکیو سے اوساکا جانے والا جاپانی ایئر لائن کا ایک طیارہ تباہ ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں طیارے میں سوار 524 میں سے 520 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
یہ حادثہ اس لیے رونما ہوا کہ بوئنگ کے تکنیکی ماہرین نے دم کی مرمت ڈھنگ سے نہیں کی تھی۔ ایک حادثے میں دم کو نقصان پہنچا تھا۔ یہ اج تک ایک طیارے کا بدترین حادثہ ہے۔
اس حادثے نے جاپانی ایئر لائن کو اس بات کا پابند کیا کہ وہ سیفٹی کے معاملے میں کسی بھی درجے کی کوتاہی برداشت نہ کرے۔ ایک خصوصی گروپ نے طیاروں کی سلامتی یقینی بنانے کی ذمہ داری قبول کی۔ جاپانی ایئر لائن کے ماہرین اور اس سے وابستہ عام افراد نے طیاروں کی سلامتی یقینی بنانے کے بارے میں سب کچھ نئے سرے سے سیکھا۔
اس حادثے کے بیس سال بعد جاپانی ایئر لائن نے توکیو میں اپنے صدر دفتر میں حادثے کا شکار ہونے والے طیارے کے ٹکڑے نمائش کے لیے رکھے تاکہ عملے ارکان اور مسافروں کو اندازہ ہو کہ پرواز کی سلامتی یقینی بنانا بہت بڑی ذمہ داری ہے۔
تب سے اب تک عملے تمام افراد پرواز کی سلامتی یقینی بنانے کے حوالے سے سب کچھ سیکھتے ہیں اور کسی بھی کوتاہی کو برداشت نہیں کرتے۔
1985 کے حادثے کا اثر جاپانی ایئر لائن سے وابستہ افراد کے ذہنوں پر اب تک برقرار ہے۔ وہ سلامتی کے معاملے میں اصولوں پر کوئی سمجھوتا نہیں کرتے۔ یہی سبب ہے کہ عملے کے افراد مئجموعی طور پر مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کر پاتے ہیں۔
منگل کے حادثے کے ذمہ داروں کا تعین تو ہوتا ہی رہے گا مگر جاپانی ایئر لائن نے جو کچھ کر دکھایا وہ دنیا بھر کی ایئر لائنز کے لیے روشن مثال کا درجہ رکھتا ہے۔
جاپانی ایئر لائن ہر طرح کے سیفٹی آڈٹ میں کامیاب ثابت ہوتی ہے۔ جاپانی ایئر لائن سلامتی کے حوالے سے معیاری سمجھے جانے والے طریقِ کار کے علاوہ بھی خصوصی قواعئد کی پابندی کرتی ہے۔