آئین پاکستان کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی گائز عیسیٰ نے سابق آمر جنرل ضیاء الحق پر کڑی تنقید کی۔
تاحیات نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت سات رکنی بینچ کی۔
اس دوران چیف جسٹس نے جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بتائیں آرٹیکل 62 میں ذیلی شقیں کب شامل کی گئیں؟
جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ آرٹیکل 62 آئین پاکستان 1973 میں سادہ تھا، آرٹیکل 62 میں اضافی شقیں صدارتی آرڈر 1985 سے شامل ہوئیں۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یعنی ضیاء نے یہ کردار سے متعلق شقیں شامل کرائیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا ضیاء الحق کا اپنا کردار اچھا تھا؟ ستم ظریفی ہے کہ آئین کے تحفظ کی قسم کھا کر آنے والے خود آئین توڑ دیں اور پھر یہ ترامیم کریں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جس فوجی آمر نے 1985 میں آئین کو روندا ، اسی نے آرٹیکل 62 اور 63 کو آئین میں شامل کیا۔ ایک مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کیسے آئین میں اہلیت کا معیار مقرر کرسکتا ہے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا ججز کو گھر بھیجنے والا آٸین شکنی کرنے والا اچھے کردار کا ہوسکتا ہے؟
مخدوم علی خان نے کہا کہ جنرل ضیاء کے بارے میں تو فیصلہ آخرت میں ہوگا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آٸین شکن کو سزا آخرت میں ہوگی؟ کیا ضیاء الحق کو سب معاف ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ بڑے بڑے علماء روزِ آخرت کے حساب سے ڈرتے ہیں۔