نواز شریف اور جہانگیر ترین سمیت آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہل قرار دیے گئے سیاستدانوں کے بارے میں سپریم کورٹ کی اہم سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس نے آئین پاکستان کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت کے لیے سات رکنی بینچ تشکیل دیا تھا جس نے آج سماعت کی اور اسے براہ راست نشر کیا گیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 7 رکنی لارجر بینچ کے سربراہ ہیں، جبکہ جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس یحیٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ کا حصہ ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف اور استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ جہانگیر ترین کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت 2017 میں عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دیا گیا تھا۔
سماعت کے آغاز میں درخواست گزار میر بادشاہ قیصرانی کے وکیل ثاقب جیلانی روسٹرم پر آئے۔ اور تاحیات نااہلی کی مخالفت کر دی۔
وکیل ثاقب جیلانی نے کہا کہ میر بادشاہ قیصرانی کے خلاف 2018 میں درخواست دائر کی گئی، جب 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا فیصلہ آیا، اب الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 شامل ہو چکا، میں تاحیات نااہلی کی حد تک استدعا کی پیروی نہیں کر رہا۔
عدالت سے درخواست ہے کہ تاحیات نااہلی کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لے۔
دوران سماعت اٹارنی جمرل منصور اعوان نے عدالت کو بتایا کہ وہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی سزا پانچ سال ہونے کی قانون سازی کو سپورٹ کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ درخواست گزار میں سے کون کون تاحیات نااہلی کی حمایت کرتا ہے؟ جس پر درخواست گزار ثناء اللہ بلوچ، ایڈووکیٹ خرم رضا اور عثمان کریم نے تاحیات نااہلی کی حمایت کردی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں دی گئی نااہلی مدت کی حمایت کرتا ہوں، عدالت سمیع اللہ بلوچ کے مقدمے پر نظر ثانی کرے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ نواز شریف کی تاحیات نااہلی کے فیصلے پر نظرثانی ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل آپ کا مؤقف کیا ہے؟ الیکشن ایکٹ چلنا چاہیے یا سپریم کورٹ کے فیصلے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کی تائید کروں گا کیونکہ یہ وفاق کا بنایا گیا ہے۔
وکیل نے کہا کہ میں نے 2018 میں درخواست دائر کی جب 62 ون ایف کے تحت نااہلی کا فیصلہ آیا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا الیکشن ایکٹ کی ترمیم کو کسی نے چیلنج کیا؟ تمام ایڈووکیٹ جنرل اٹارنی جنرل کےمؤقف کی تائید کرتے ہیں یا مخالفت؟
تمام صوبائی ایڈوکیٹ جنرلز نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم اور اٹارنی جنرل کے مؤقف کی تائید کردی۔
اٹارنی جنرل نے آئین کا آرٹیکل 62، 63 عدالت میں پڑھ کر سنایا، اٹارنی جنرل نے رکن پارلیمنٹ بننے کیلئے اہلیت اور نااہلی کی تمام آئینی شرائط پڑھیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کاغذات نامزدگی کے وقت سے 62 اور 63 دونوں شرائط دیکھی جاتی ہیں، انٹری پوائنٹ پر دونوں آرٹیکل لاگو ہوتے ہیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آرٹیکل 62 اور 63 میں فرق کیا ہے؟۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 62 ممبران کی اہلیت اور 63 نااہلی سے متعلق ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 62 کی ذیلی شقیں مشکل پیدا کرتی ہیں جو کردار کی اہلیت سے متعلق ہیں، کسی اور کے کردارکا تعین کیسے کیا جاسکتا ہے، کچھ شقیں تو حقائق سے متعلق ہیں وہ آسان ہیں۔ کچھ شقیں مشکل ہیں جیسے اچھے کردار والی شق۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اٹارنی جنرل اچھے کردار کے مالک ہے؟ جواب نا دیجیے گا صرف مثال کیلٸے پوچھ رہا ہوں۔
اٹارنی جنرل نے کہا ’کہہ سکتے ہیں‘۔
چیف جسٹس کے ریمارکس پر عدالت میں قہقے گونج اٹھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اسلامی تعلیمات کا اچھا علم رکھنا بھی ایک شق ہے، پتہ نہیں کتنے لوگ یہ ٹیسٹ پاس کرسکیں گے۔ ’آئین یہ بھی نہیں کہتا تھا اپ کو رکن اسمبلی بننے کے لیے گریجویٹ ہونا لازم ہے۔ بعد میں ایک ایسا قانون شاید مشرف کے زمانے میں آیا تھا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’نااہلی کی مدت کا تعین آئین میں نہیں، اس خلا کو عدالتوں نے پر کیا۔‘ سپورٹر کہیں گے آپ اعلیٰ کردار، مخالفین بدترین کردار کا کہیں گے، اسلامی معیار کے مطابق تو کوئی بھی اعلیٰ کردار کا مالک ٹھہرایا نہیں جاسکتا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کو ٹچ کیے بغیر 5 سالہ نااہلی قانون مان لیں؟
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ کی یہ ترمیم چیلنج نہیں ہوئی، جب ایک ترمیم موجود ہے تو ہم پرانے فیصلے کو چھیڑے بغیر اس کو مان لیتے ہیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ تاثر ایسا آسکتا ہے کہ ایک قانون سے سپریم کورٹ فیصلے کو اوور رائٹ کیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ تو کیا اب ہم سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو دوبارہ دیکھ سکتے ہیں؟۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں عدالت نے ایک نقطے کو نظرانداز کیا، عدالت نے کہا کرمنل کیس میں بندہ سزا کے بعد جیل بھی جاتا ہے، اس لیے نااہلی کم ہے، عدالت نے یہ نہیں دیکھا ڈیکلیریشن باسٹھ ون ایف اور کرمنل کیس دونوں میں ان فیلڈ رہتا ہے، آرٹیکل 62 اہلیت اور 63 نااہلی سے متعلق ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن لڑنے کیلئے جو اہلیت بیان کی گئی ہے، اگر اس زمانے میں قائداعظم ہوتے وہ بھی نااہل ہو جاتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ صادق و امین کا لقب صرف اور صرف حضرت محمد ﷺ کے لیے مخصوص ہے، صادق اور امین کے الفاظ کوئی مسلمان اپنے لئے بولنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا، بڑے بڑے علماء روزِ آخرت کے حساب سے ڈرتے رہے، اگرمیں کاغذاتِ نامزدگی جمع کراتا ہوں اور کوئی کہتا ہے کہ یہ اچھے کردار کے نہیں تو میں تو چیلنج نہیں کروں گا، کیونکہ جو کردار کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اسراف کرنے والا نہ ہو، ہم روز بجلی، پانی کا اسراف کرتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اچھے کردار کے بارے میں وہ ججز فیصلہ کریں گے جو خود انسان ہیں، ہم تو گناہ گار ہے اور اللہ تعالی سے معافی مانگتے ہیں۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ معمولی وجوہات کی بنیاد پر تاحیات نااہلی غیرمناسب نہیں لگتی؟ قتل اور غداری جیسے سنگین جرم میں کچھ عرصے بعد الیکشن لڑ سکتے ہیں،کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کو ختم کرنے کیلٸے آٸین میں ترمیم کرنا پڑے گی، کیا آٸین میں جولکھا ہے اسے قانون سازی سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سوال یہ ہے کیا ذیلی آٸینی قانون سازی سے آٸین میں ردوبدل ممکن ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن ایکٹ بھی تو لاگو ہوچکا اور اس کو چیلنج بھی نہیں کیا گیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب تک عدالتی فیصلے موجود ہیں تاحیات نااہلی کی ڈیکلریشن اپنی جگہ قاٸم ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 62 میں نااہلی کی مدت درج نہیں بلکہ یہ صرف عدالت نے دی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدالت کسی شخص کے خلاف ڈیکلریشن کیسے دے سکتی ہے؟ کوٸی 20 سال بعد سدھر کر عالم بن جائے تو کیا اس کا کردار اچھا ہوگا؟ اگر پہلے کسی نے ملک مخالف تقریر کردی تو وہ آج بھی انتخابات نہیں لڑ سکتا۔
جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ 18ویں آٸینی ترمیم میں ڈیکلریشن کا مقصد آر او کے فیصلے پر اپیل کا حق دینا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کوٸی شخص توبہ کرکے عالم یا حافظ بن جائے تو برے کردار پر تاحیات نااہل رہے گا؟ آرٹیکل 63 ون جی کے تحت ملکی سالمیت اور نظریے کی خلاف ورزی پر نااہلی پانچ سال ہے، کیا کوٸی شخص حلفیہ طورپرکہہ سکتا ہے کہ وہ اچھے کردار کا مالک ہے۔
اس کے بعد جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت پانچ سال مقرر کرنے کے حق میں ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جس فوجی آمر نے 1985 میں آئین کو روندا، اسی نے آرٹیکل 62 اور 63 کو آئین میں شامل کیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سوال یہ بھی ہے اٹھارویں ترمیم میں آرٹیکل 62 اور 63 پر مہر لگائی گئی۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ایک مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کیسے آئین میں اہلیت کا معیار مقرر کرسکتا ہے؟
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سپریم کورٹ صرف صوبوں کے مابین تنازعات پر ڈکلریٹو فیصلہ دے سکتی ہے۔
ثناء اللہ بلوچ نے کہا کہ پچاس سال سے قانون میں اراکین کی اہلیت کا معیار طے ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پھر اس سے پہلے کوئی باسٹھ ون ایف کے تحت نااہل کیوں نہ ہوا۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے سوال اٹھایا کہ ایک شخص کو سزا مل گٸی تو بات ختم کیوں نہیں ہوجاتی؟ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ سزا کاٹ لینے کے بعد بھی کبھی انتخابات نہ لڑ سکے، آٸین میں ہر سزا کی مدت ہے تو نااہلی تاحیات کیسے ہوسکتی ہے۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ میں موجودہ کیس میں جہانگیر خان ترین کا وکیل ہوں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو عدالتی معاون مقرر کرنے کا سوچ رہے تھے لیکن آپ پہلے ہی ہمارے سامنے فریق ہیں، یہ بتائیں کہ آرٹیکل 62 میں یہ شقیں کب شامل کی گئیں؟
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ آرٹیکل 62 آئین پاکستان 1973 میں سادہ تھا، آرٹیکل 62 میں اضافی شقیں صدارتی آرڈر 1985 سے شامل ہوئیں۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یعنی ضیاء نے یہ کردار سے متعلق شقیں شامل کرائیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا ضیاء الحق کا اپنا کردار اچھا تھا؟ ستم ظریفی ہے کہ آئین کے تحفظ کی قسم کھا کرآنے والے خود آئین توڑ دیں اور پھر یہ ترامیم کریں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا ججز کو گھر بھیجنے والا، آٸین شکنی کرنے والا اچھے کردار کا ہوسکتا ہے؟
مخدوم علی خان نے کہا کہ جنرل ضیاء کے بارے میں تو فیصلہ آخرت میں ہوگا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آٸین شکن کو سزا آخرت میں ہوگی؟ کیا ضیا الحق کو سب معاف ہے؟ بڑے بڑے علماء روزِ آخرت کے حساب سے ڈرتے ہیں۔
اس کے بعد وکیل درخواستگزار عثمان کریم روسٹرم پر آگٸے اور عدالت کو کہا کہ جب تک سمیع اللہ بلوچ کا فیصلہ موجود ہے قانون نہیں آسکتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وہ کون ہے جو قانون کی مخالفت کررہا ہے، ہم سننا چاہتے ہیں، ایک مارشل لا ڈکٹیٹر کے خلاف الفاظ ادا کرنے میں اتنے خوفزدہ کیوں ہیں؟ اچھے کردار کے بارے میں وہ ججز فیصلہ کریں گے جو خود انسان ہیں، ہم بنیادی اصول قاٸم کرکے ذاتیات میں نہیں جاٸیں گے۔
چیف جسٹس نے وکیل مخدوم علی خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مخدوم صاحب کیا آپ کسی ایسے فریق کو جانتے ہیں جو تاحیات نااہلی کا حامی ہو؟ شعیب شاہین کہاں گئے شاید ان کے پاس کوئی پوائنٹ ہو۔
اس کے بعد عدالت نے ویڈیو لنک پر وکلاء کو دلائل سے روک دیا۔
چیف جسٹس نے وکلاء کو کہا آپ اس کیس میں سنجیدہ ہیں تو اسلام آباد آئیں، ہم آج اس کیس کو ملتوی کردیں گے، ہم اس کیس کو جمعرات کو دوبارہ سنیں گے، عدالت کو اس معاملے پر معاونین کی خدمات درکار ہوگی۔
گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کے آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق تمام درخواستیں ایک ساتھ سننے کا فیصلہ کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ سماعت کے تحریری حکمنامے میں کہا تھا کہ نااہلی کی مدت کے سوال والے کیسز جنوری کے آغاز پر مقرر کئے جائیں، کیس کے زیرِ التوا ہونے کو الیکشن میں تاخیر کیلئے استعمال نہیں کیا جائے گا۔
حکمنامے میں کہا گیا تھا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے نشاندہی کی آئینی سوال والے کیس پر کم از کم پانچ رکنی بنچ ضروری ہے۔
حکمنامے کے مطابق فریقین کے وکلا نے کہا ہے کہ نااہلی کی مدت کے تعین کے حوالے سے عام انتخابات سے پہلے اس عدالت کا فیصلہ ضروری ہے۔
یاد رہے کہ نواز شریف کے کاغذات نامزدگی منظور ہوچکے ہیں تاہم پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ نے انہیں تاحیات نااہل قرار دیا تھا۔
امیدواروں کی حتمی فہرست 13 نومبر کو جاری ہونی ہے۔ اس سے قبل نواز شریف اور جہانگیر ترین کے حوالے سے فیصلے کی توقع کی جا رہی ہے۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ یہ بینچ میربادشاہ قیصرانی کیس میں تاحیات نااہلی سے متعلق نوٹس پر تشکیل دیا گیا ہے تاہم اس فیصلے کا اثر ان تمام سیاستدانوں پر ہوگا جو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیئے گئے ہیں۔
آئینِ پاکستان کے دو آرٹیکلز قانون سازوں کی اہلیت سے متعلق ہیں۔ آرٹیکل 62 اہلیت اور آرٹیکل 63 کسی شخص کو پارلیمنٹ کا رکن بننے کے لیے نااہل قرار دیتا ہے۔
آرٹیکل 62 کی ایک ذیلی شق 62 ون ایف کہتی ہے کہ کوئی شخص مجلسِ شوریٰ (پارلیمنٹ) کا رکن منتخب ہونے کا اہل نہیں ہو گا جب تک کہ وہ غیر منافع بخش، ایماندار، امین، عقلمند اور صالح نہ ہو۔ اور اس کے خلاف عدالت کی طرف سے کوئی اعلان نہ کیا گیا ہو۔
ویسے تو کسی رکن پارلیمنٹ کو ملک کے دیگر قوانین کے تحت سنگین جرائم کا مرتکب پائے جانے پر عوامی عہدہ رکھنے کیلئے نااہل قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن 62 ون ایف کے تحت نااہلی زیادہ سخت ہے۔
دوسرے قوانین کے تحت نااہل شخص سزا کی تاریخ سے پانچ سال بعد پارلیمنٹ میں واپس آ سکتا ہے، لیکن 62 ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات ہے۔