پاکستان اور بھارت کے درمیان نئے سال کے آغاز پر جوہری تنصیبات کی فہرستوں کا سالانہ تبادلہ ہوا ہے۔
پاکستان اور بھارت نے جوہری تنصیبات کے خلاف حملوں کی ممانعت کے معاہدے پر 1988 میں دستخط کیے تھے، جس کے مطابق پاکستان اور بھارت میں معاہدہ ہے کہ دونوں ممالک ہر سال کے پہلے دن جوہری تنصیبات کے بارے میں ایک دوسرے کو آگاہ کریں گے۔
31 دسمبر 1988 کو طے پانے والے معاہدے میں طے کیا گیا تھا کہ دونوں ممالک ہر سال یکم جنوری کو ایک دوسرے کو جوہری تنصیبات اور املاک کے بارے میں آگاہ کریں گے۔ بعد ازاں 27 جنوری 1991 کو اس معاہدے کی توثیق کی گئی تھی۔ فہرستوں کے تبادلے کا سلسلہ یکم جنوری 1992 سے جاری ہے۔
واضح رہے کہ بھارت نے پہلی بار جوہری تجربے کے لیے دھماکے 1974 میں کیے بعد ازاں دونوں پڑوسی ممالک نے 1998 میں تجربے کیے تھے جس میں پاکستان نے پہلی بار جوہری طاقت ہونے کا اعلان کیا تھا۔
پاکستان نے جوہری تنصیبات کی فہرست بھارت کے ہائی کمیشن کے نمائندے کے حوالے کی، جبکہ نئی دہلی میں پاکستان کے ہائی کمیشن کو جوہری تنصیبات کی فہرست دی گئی۔
اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک اپنے اپنے حساس مقامات کے بارے میں ایک دوسرے کو معلومات فراہم کرتے ہیں۔ فہرستوں کے تبادلے کے بعد دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی عام استعمال کی جوہری تنصیبات کے مقامات کا علم ہوتا ہے۔
اس فہرست میں اگرچہ ایٹمی ہتھیاروں کی اصل تعداد یا حقیقی مقامات کی معلومات فراہم نہیں کی جاتیں، البتہ فہرست کی مدد سے نو فلائی زون اور نو انٹری ایریاز کے بارے میں معلومات کا تبادلہ ہو جاتا ہے۔
بھارتی نیوکلئیر ہتھیاروں کی موت، پاکستان کا ’الٹی میٹ نیوکلئیر میزائل‘ ابابیل کیا ہے؟
اس کے علاوہ زلزلہ یا کسی اور حادثہ کی صورت میں جوہری تابکاری کے اخراج سے متاثر ہونے کے اندیشے والے علاقوں کی نشاندہی بھی ہو جاتی ہے تاکہ دونوں ملک ایک دوسرے کے کسی حادثہ کی صورت میں بھی محفوظ رہ سکیں۔
یہ معاہدہ عالمی قوانین کے مطابق ہے اور ماضی میں امریکا اور روس کے درمیان بھی ایسا معاہدہ موجود تھا۔
ایسے معاہدہ کی موجودگی کی وجہ سے دونوں ممالک ایک دوسرے کے حساس علاقوں میں جانے سے مکمل طور پر گریز کرتے ہیں، کیونکہ ایسا ہونے کی صورت میں، چاہے کوئی مسافر طیارہ ہی کیوں نہ ہو، اس ملک کو اسے مار گرانے کا مکمل اختیار ہوتا ہے۔
ایسی فہرست کی صورت میں دونوں ممالک احتیاط کرتے ہیں اور حادثاتی طور پر بھی کوئی بڑا سانحہ ہونے سے بچا جا سکتا ہے۔