متعدد حکومتی اقدامات کے باوجود چینی معیشت استحکام کی منزل سے دور ہوتی جارہی ہے۔ مینوفیکچرنگ کا شعبہ شدید دباؤ میں ہے کیونکہ ایک طرف غیر معمولی تناسب سے پیداوار جاری ہے تو دوسری جانب ان کی فروخت کا خاطر خواہ اہتمام کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
اپنی اپنی معیشتوں کے لیے شدید مسابقت کا ماحول پیدا ہونے کے خوف سے مغربی ممالک کا چین کے خلاف ڈٹ جانا بھی ایک نئی عالمی تجارتی جنگ کے سے حالات پیدا کرتا دکھائی دے رہا ہے۔
برطانوی جریدے دی اکنامسٹ کی رپورٹ کے مطابق چین کا پرچیزنگ مینوفیکچرنگ انڈیکس دسمبر میں مسلسل تیسرے ماہ 49.4 سے 49 فیصد تک گرا۔ اس انڈیکس میں 50 فیصد تک گراوٹ کا مطلب معیشت کا سکڑاؤہے۔
معیشت کے دیگر شعبوں نے قدرے اطمینان بخش کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ نان مینوفیکچرنگ پرچیزنگ مینیجرز انڈیکس 50 سے بلند ہوکر 50.4 تک پہنچ گیا ہے۔ یہ تبدیلی متعلقہ شعبے میں صحت مندانہ سرگرمی اور تحرک کی نشاندہی کرتی ہے۔
ذہن نشین رہے کہ چینی معیشت کو اب امریکہ اور یورپ کی طرف سے غیر معمولی تحفظات کا سامنا ہے۔ یورپی مارکیٹ میں چینی اشیا کی بھرمار نے مقامی صنعتی اداروں کو شدید تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ وہ حکومتوں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ چین کی طرف اشیا و خدمات کی ڈمپنگ روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات کریں۔
چین نے سسٹی برقی کاریں مارکیٹ میں لاکر یورپی اداروں کے لیے خظرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ جاپان کے علاوہ فرانس، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک کے کاریں تیار کرنے والے ادارے بھی چینی برقی کاروں کی درآمد پر غیر معمولی ٹیرف کے نفاذ کا مطالبہ کیا ہے۔
چین کو اب ہائی ٹیک کے شعبے میں بھی امریکہ اور یورپ سے غیر معمولی مسابقت درپیش ہے۔ چینی ماہرین کی صلاحیتوں سے خوفزدہ امریکی اور یورپی صنعت کار اور تاجر ایسے اقدامات کر رہے ہیں جن کا مقصد چینی مصنوعات کی آمد روکنا ہے۔
غیرمعمولی ٹیرف سے ہٹ کر بھی اقدامات کیے جارہے ہیں۔ چینی کاروباری اداروں کے بارے میں یہ پروپیگنڈا بھی کیا جارہا ہے کہ وہ ماحول کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں۔