پاکستانی صحافی ساتھیوں کے ساتھ چین کا سفر جہاں کئی حیرت انگیز حقائق سے سامنا کرانے کا سبب بنا وہاں سیکھنے کو بھی بہت کچھ تھا ۔اس سفر میں چین کی ترقی کی کہانی سنانا, پڑھنے والوں کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہو گی کیونکہ سوشل میڈیا کی اس دُنیا میں ایک کلک پر پورا چین اب سب کے سامنے ہے لیکن جو اہم بات مجھے دیکھنے اور سننے کو ملی وہ تھی “ قانون کی حکمرانی “ کیونکہ پاکستان جسیے ترقی پذیر ملک کی شہری ہونے اور پھر ایک پسماندہ صوبہ خیبر پختونخوا کی مٹی سے جنم لینے کے ناطے کئی حقائق ان سارے سوالوں کو پھر سے سامنے لے آئے جن کی تلاش میں کئی دہائیوں کا سفر طے کیا پر جواب ملنے کی بجائے سوالوں کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا ، لیکن 11 روز کے اس سفر نے ان سوالوں کو ایک جملے میں تبدیل کردیا۔
”ہم ایسے کیوں نہیں“
بیجنگ ،چینگڈو ، کاشغر کے بعد اب ہماری منزل تھی پہاڑوں،صحراؤں اور مرغزاروں کی سرزمین سنکیانگ کا شہر اُرمچی (Ürümqi) ۔
میں جب اس شہر کے بارے میں جاننے کی کوشش کر ری تھی تو مجھے علم ہوا کہ ”Ürümqi“ منگول Oirat زبان سے آیا ہے جس کا مطلب ہے ”خوبصورت چراگاہ“۔
یہ تعارف اور پھر ارمچی سے جڑے کچھ تاریخی قصے لیکن ساتھ ہی ساتھ بین الاقوامی سطح پر پھیلی کچھ عجیب کہانیاں۔۔۔ سب دیکھنے اور جاننے کے لیے میں کیا ہم سب بے تاب تھے ۔پہلا حیر انگیز احساس اس وقت ہوا جب جہاز ارمچی کی حدود میں داخل ہوا اور لینڈنگ کا اعلان ہوا تو میں نے کھڑکی سے نیچے جھانک کر دیکھا ۔۔ہر طرف برف کی ایک چادر تھی جس نے پورے علاقے کو ڈھانپ رکھا تھا ۔برف پوش پہاڑوں کی چوٹیاں تھیں یا زمین ۔ ہر طرف برف ہی برف ۔۔جیسے جیسے جہاز زمین کے قریب آرہا تھا میری حیرت بڑھ رہی تھی کیونکہ برف کی ایک گہری ہوتی چادر لیکن سڑکوں پر ٹریفک اور شہر میں زندگی ایسے رواں دواں جیسے کچھ مسئلہ ہی نہیں۔ مجھے یاد آیا کہ ہمیں کاشغر میں بتایا گیا تھا کہ ارمچی میں ٹمپریچرمنفی 24 سیلسیس تک گر جائے گا اس لیے احتیاط کیجئے گا۔ اب جہاز کی کھڑکی سے جو منظر میرے سامنے تھا، اُس نے ٹھنڈک کے احساس کو تو بڑھایا ہی ساتھ ایک سوال بھی اٹھا دیا ۔ مسلسل برف لیکن روڈ کھلے اورزندگی رواں دواں ۔۔ کیسے ۔۔
جہاز جیسے جیسے زمین کی طرف بڑھ رہا تھا مجھے میرے سوال کا جواب ملنا شروع ہوگیا ۔ہر طرف پھیلی بھاری مشینری اور پھر ہاتھوں میں برف ہٹانے کا سامان لیے جگہ جگہ ٹولیوں کی شکل میں موجود افراد جو بغیر کسی تاخیر کے سڑکیں اور راستے صاف کررہے تھے ۔ ایک طرف آسمان سے باتیں کرتے پہاڑ تھے تو دوسری جانب اُنہی کے بیچ آسمان کی بلندیوں کو چھوتی بڑی بڑی عمارتیں ۔ ۔جنگل میں منگل کا سا سماں تھا ۔عقل دنگ تھی کہ کیسے ۔۔۔اور پھر وہاں گزارے ہر دن نے بتایا کہ ایسے
“ قانون کی حکمرانی “
دوپہر کے کھانے کے بعد ہماری پہلی منزل تھی مقم آرٹ تھیٹر۔
سنا تھا کہ کسی بھی ثقافت کو سمجھنے کے لیے آرٹ ہمیشہ سے ایک طاقتور ذریعہ رہا ہے جبکہ موسیقی کسی علاقے یا زبان کی مرہون منت نہیں ہوتی ۔ مقم آرٹ تھیٹر کا وزٹ اس بات پر مہر ثابت ہوا اور وہاں کے فنکاروں کی طرف سے پیش کیے گئے محبت کے اظہار میں دنیا کی سرحدوں کو عبور کرنے اور لوگوں کو اکٹھا کرنے میں فنکارانہ اظہار کی طاقت بھی دکھائی دی۔ فنکاروں کی خوبصورت گائیکی، رقص و موسیقی ثقافت اورجدت کا حسین امتزاج نظر آئی۔ مقم آرٹ تھیٹر،ریہرسل ہالز، دفاتر اور چار ریہرسل اسٹوڈیوز کے ساتھ متاثرکن حیثیت کاحامل دکھائی دیا۔
ہماری اگلی منزل سنکیانگ میڈیکل یونیورسٹی تھی ۔میں نے سنا تھا کہ چین کے تعلیمی اداروں میں پاکستان طلبا کی ایک بڑی تعداد زیر تعلیم ہے جو وہاں کی یونیورسٹیوں اور بہترین نظام تعلیم کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے جس کی وجہ سے ذہن میں کچھ مختلف سا نقشہ بن گیا تھا۔ سنکیانگ میڈیکل یونیورسٹی کے اندررکھا جانے والا پہلا قدم یہ واضح کر گیا کہ درس و تدریس کا یہ مجموعہ دراصل ٹیکنالوجی سے آراستہ عمارتوں، بہترین کتب خانے، کینٹین، اسپتال اور ٹریننگ سنٹروں پر مشتمل ایک شاہکار ہے ۔ یونیورسٹی میں طب کی خاص تعلیم کے ساتھ ساتھ مینجمنٹ اور لسانیات کی تعلیم کا بھی اچھا انتظام ہے۔ انڈرگریجویٹ طلبا کے لیے 25 پروگرم اور اکیڈمک کے لیے 17 مخصوص پروگرام ہیں۔
یونیورسٹی میں سوات،دیر اور گوجرانوالہ کے طلبا سے بھی ملاقات ہوئی جنہوں نے بتایا کہ ہر سال درجنوں پاکستانی طلبا اس یونورسٹی کا حصہ بنتے ہیں جن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
چین کے شہر ارومچی میں قائم اس ادارے کے دورے نے مجھے حیران کر دیا ۔وہ جو میں نے شروع میں کہا کہ
“ قانون کی حکمرانی “
اس کا اصل مطلب یہاں آکر مزید واضح ہو گیا ۔خود مختار ریاستوں کے لیے اپنے ملک کا مفاد دراصل عوام کا تحفظ ہی ہوتا ہے جسکےحصول کے لیے وہ سب سے پہلے “ قانون کی حکمرانی “ ممکن بناتی ہیں تبھی جا کر امن اور ترقی کی منازل طے ہوتی ہیں اور اس کا واضح اظہار تھا چین کے شہرارومچی میں قائم تھیم ایگزیبیشن کا یہ ادارہ، جہاں سنکیانگ میں دہشت گردی کے خلاف چینی حکومت کی طرف سے کی گئی تمام کوششوں کو نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔
’تھیم ایگزیبیشن‘ میں گائیڈ نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ اس صوبے میں دہشت گردی کے پیچھے غیر ملکی قوتوں کے ملوث ہونے کئے کئی ثبوت ملے ہیں جبکہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال ہونے والا مواد بھی برآمد کیا گیا ہے ۔ سنکیانگ کا مسلم اکثریتی علاقہ بنیادی طور پر سال 1996 سے 2016 کے درمیان دہشت گردی اور انتہا پسندانہ حملوں کی زد میں رہا۔ پاکستانی میڈیا کے وفد کو شدت پسندوں سے بڑی مقدار میں برآمد ہونے والے تیز دھار ہتھیار، دھماکہ خیز مواد اور بندوقیں بھی دکھائی گئیں۔
اس کے علاوہ گائیڈ نے ہمیں سنکیانگ کی آبادی کو عسکریت پسندوں کے حملے سے بچانے کے لیے اپنے سربراہ Xi Jinping کی قیادت میں چین کی جانب سے جاری کوششوں کے بارے میں بھی بتایا ۔وہاں دی گئی بریفنگ کے بعد ایک بات پوری طرح واضح ہو گئی کہ اگر ریاست خطرات اور چیلنجز کا موؑثر طریقے سے جواب دینے کے لیے پوری ایمانداری سے اقدامات اٹھائے تو مستحکم اقتصادی ترقی اور سماجی استحکام ممکن ہے جس کا عملی نمونہ ہمارے سامنے چین کا یہ صوبہ اور اس کا شہر ارمچی تھا۔
چین کے شمال مغربی حصے میں واقع اسلامک انسٹی ٹیوٹ ملک میں الہیات کی 10 اسلامی فیکلٹیز میں سے ایک ادارہ ہے جو ایغور زبان میں تعلیم دیتا ہے۔انسٹی ٹیوٹ میں تقریباً 70 فیصد کورسز اسلام سے متعلق ہیں جن میں قرآن اور عربی کی تلاوت اور تفسیر شامل ہے اور بقیہ 30 فیصد میں طلباء کو انسداد دہشت گردی کے قوانین ،تاریخ ،ایغور ادب، اور کمپیوٹر کی مہارتیں بھی سکھائی جاتی ہیں۔ ادارے میں 45 ہزار سے زائد کتب پر مشتمل ایک لائبریری بھی ہے ۔تعلیم کی تکمیل کے بعد طلباء کو بیچلر کی ڈگریاں دی جاتی ہیں اور پھر وہ اپنے آبائی علاقوں کو واپس جا کرامام اور مذہبی عہدیدار کے طور پر خدمات سرانجام دیتے ہیں۔
سنکیانگ ریجنل میوزیم، جو ارومچی کا ایک مشہور تاریخی نشان سمجھا جاتا ہے معلومات کے ایک خزانے کے طور پر ہمارے سامنے تھا ۔ سنکیانگ کی تاریخ اور متنوع نسلی ثقافتوں کی جھلک دیکھنے کے لیے اس سے بہتر جگہ ہو ہی نہیں سکتی ۔میوزیم میں نمائش کے لیے رکھی گئی قدیم حنوط شد ممیاں میوزیم کا سب سے دلچسپ، معلوماتی اور چشم کشا حصہ ہیں جو آپ کو تقریباً 2,100 سال قبل لولان قدیم بادشاہی کی طرف لے جاتی ہیں۔
میوزیم میں سنکیانگ کی ممیاں، تانگ خاندان کے پینٹ شدہ مٹی کے برتن، مشہور فوکسی اور نووا پینٹنگز اورہان خاندان کے کڑھائی کے کام ساتھ ساتھ بنیادی طور پر 12 اہم نسلی گروہوں کے مکانات، فرنیچر، ملبوسات، روزمرہ کی ضروریات اور لوک رسم و رواج کو متعارف کرواتا خزانہ موجود ہے جن میں اویگور، قازق، منگول، زیبی اور دیگر قومیتیں شامل ہیں۔ نمائشی ہال کے اندرموجود ہر شے ہزاروں سال قبل کی حقیقی زندگی کے مناظر دکھاتی محسوس ہوئی۔
ارمچی انٹرنیشنل لینڈ پورٹ ایریا چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے شاہراہ ریشم اکنامک بیلٹ کے بنیادی علاقے کے طور پر خطے کی تعمیر میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔یہ زمینی بندرگاہ ایشیا اور یورپ کی دو اقتصادی پٹیوں کو جوڑنے کے ساتھ ساتھ وسطی اور مغربی ایشیا کے لیے چائنا ریلوے ایکسپریس ٹو یورپ (ارمچی) روٹ کا قریب ترین لاجسٹک مرکز ہے۔اپنے ٹرپ کے آخری روز صحافی ساتھیوں کے ساتھ جب ہم نے اس لینڈ پورٹ ایریا کا وزٹ کیا تو پوارا علاقہ برف کی سفید چادر اوڑھے ہوئے تھا اور میں وہاں کھڑی کھلی آنکھوں سے اپنے اُس خواب کو دیکھ رہی تھی کہ جب میں پاکستان سے ٹرین کے ذریعے دریائے سندھ کے کنارے سفر کرتے ہوئے خنجراب کے راستے چین کے صوبہ سنکیانگ میں داخل ہوں اور پھر میری اگلی منزل سنٹرل ایشیا اور یورپ ہو ۔
منفی 24 سلسیس میں ٹھٹہرتے وجود کے ساتھ کھلی آنکھوں سے دیکھا گیا یہ خواب کب پورا ہوگا یہ تو میں نہیں جانتی لیکن چین کے دورے اور خاص طور پر سنکیانگ کے دو اہم علاقے کاشغر اور ارمچی کے سفر کے بعد ایک بات تو کنفرم ہو گئی کہ دہشت گردی سے لڑنا ہو یا پھر اپنے لوگوں کو اپنے ہونے کا احساس دلا کر ایک مستحکم اقتصادی ترقی اور سماجی استحکام کا ماحول دینے کے لئے کسی راکٹ سائنس کی نہیں ول کی ضرورت ہوتی ہے جو فی الحال ہمارے ہاں دکھائی نہیں دیتی۔