خداِ جذبہ دل کی مگر تاثیر ہے الٹیکہ جتنا کھینچتا ہوں اتنا کھینچتا جاتا ہے
غالب کا یہ شعر علیزے اور شیری کی شادی شدہ زندگی کو بیان کرتا ہے،علیزے کو اپنی قابلیت، خوداعتمادی کے ذریعے ایک بااختیار اور آزاد پنچھی بننے کی جستجو ہے تو شیری کو اپنے امیر ہونے اور مردانگی پر غرور ہے۔ دونوں اپنے انہیں ہتھیاروں سے پنجہ آزمائی کی کوشش میں مصروف عمل ہیں ۔ اس جنگ کا آغاز دونوں کی شادی کے پہلی رات ہی ہوگیا تھا جب شیری اپنی نئی نویلی دلہن سے کہتا ہے کہ
’آج سے تم وہی کہو گی جو میں کہوں گا ۔۔ آج سے تم میری پسند کا پہنو گی‘
ابتداء میں ایسا لگا کہ علیزے اور شیری یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ تالی ہمیشہ دونوں ہاتھ سے بجتی ہے دو لوگوں کو تعلق نبھانے میں کبھی کسی ایک کو سر جھکانا پڑتا ہے تو کبھی دوسرے کو اپنی خواہشات اور انا کے بت کو توڑنا پڑتا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی دوسرے کے مان کا پاس رکھنا ہوتا ہے ایسے میں یہ اہمیت نہیں رکھتا کہ آپ کس مرتبے پر فائز ہیں یا آپ کتنے امیر یا غریب ہیں ۔
بات ہورہی ہے ڈرامہ ’جیسے آپ کی مرضی ’ کی جس میں میکال ذوالفقار (شیری ) درفشاں سلیم (علیزے ) کرن ملک ، علی سفینا جاوید شیخ اور دیگر اہم کردار نبھارہے ہیں ڈرامہ کو نائکہ جعفری نے تحریر کیا ہے جبکہ صبا حمید نے اس کے ہدایتکاری کے فرائض انجام دیئے ہیں ۔
ڈرامے کی کہانی
ڈرامے کی کہانی شیری اور علیزے کے گرد گھومتی ہے جس میں شیری کا کردار کبھی ایک چلاک لومڑی تو کبھی محبت میں مجنوں بننے کی مانند نظر آتا ہے لیکن اس کا مقصد صرف اپنےآپ کی بڑائی اور برتری حاصل کرنا ہے اس کے برعکس علیزے ایک خودمختار اور نہ صرف اپنے بلکہ دوسروں کے حق کیلئے آواز اٹھانے والی ایک اڑتی پھرتی چریا ہے، جس کیلئے اس کا پروفیشنل کریئر سب سے اہم ہے اور اس چڑیا کا آزاد رہنا اس کے شوہر نامدار سے برداشت نہیں ہورہا وہ اپنی بیوی کو روایتی بیوی کے طور گھر تک محدود کرنا چاہتا ہےاس ضمن میں وہ ہر پل اس کوشش میں لگاہے کہ کیسے اس کے پنچھی کے پَر کاٹے جائیں جیسا کہ شیری کا ماننا ہے کہ
’اگر کسی چیز کو پسند کرو تو اسے قید کرلو تاکہ وہ کہیں جا نہ سکے‘
ڈرامہ کا ہر کردار ایک دوسرے سے منسلک ہے جہاں دولت کے گھمنڈ میں شیری اپنے آپ کو بادشاہ تصور کرتا ہے تو وہیں اس کی بہن بھی اپنے آپ کو ملکہ سمجھتی ہے اپنے سے نیچے کام کرنے والوں کو انسان نہ سمجھنا ، دنیا پر حکم صادر کرنا، نیکی کی غرض اپنی تعریف سننا اور اپنی مرضی کے خلاف ہونے والے کسی بھی کام پر آگ بگولہ ہوجانا دونوں بہن بھائی کا شیوا ہے فرق صرف یہ ہے کہ اس کی بہن اپنے روب اور دبدبے سے دنیا کو جیتنا چاہتی ہے تو شیری اپنی واہ واہ اور جیت کیلئے جذبات ، محبت اور جھوٹ کا سہارا لیتا ہے ،بعض اوقات اس میں نفسیاتی مریض یا بیمار سوچ رکھنے والے جھلک نمایاں ہوتی ہے جو اپنی بیوی کو قابلیت میں اپنے برابر دیکھنا یا کسی کی منہ سے اس کی تعریف سننا برداشت نہیں کرسکتا ہے علیزے کے پورے کردار کی تعریف ڈرامے ایک ڈائیلاگ پر مبنی ہے کہ
’ جس کو دانہ پانی دو، چھاؤں دو، اس کو پابند نہ کرو اس کی آزادی کا احساس کرو، آخر اس کا بھی اپنا کوئی وجود ہے’
معاشرے کی تلخ حقیقت
جس طرح ڈرامے میں کلاس سسٹم ،دوہرا معیار، پدرشاہی اور خاندانی تعلق کو پیش کیا گیا ہے وہ کوئی نئی یا ڈھکی چھپی بات نہیں کیونکہ ہم معاشرے میں اکثر اقربا پروری کی ایسی مثالیں دیکھتے رہتے ہیں، جہاں علیزے کیلئے اس کا خود مختار ہونا جرم ہورہا ہے تو وہیں شیری کی بہن نتاشہ کو با اختیار بننے کی مکمل آزادی ہے اسی لیے اگر یہ کہا جائے کہ ڈرامے میں عورت کے کردار کو برا یا مرد کے کردار کو یکطرفہ طور پر اچھا دکھایا گیا ہے تو سراسر غلط ہوگا کیونکہ جہاں شیری کو دولت اور مردانگی کے باعث مغرور دکھایا گیا وہیں شیری کے امیر والد اور علیزے کے اپر مڈل کلاس والد کو خاندانی تعلق نبھانے والے صحیح اور غلط کی سمجھ رکھنے اور عورت کو مکمل آزادی دینے والے مرد کے طور پر دکھایا گیا ہے ، دراصل یہ معاشرے کا وہ کڑوا سچ ہے جسے شیری جیسی سوچ رکھنے والے بہت سے مرد ماننے سے انکار کرتے ہیں انہیں اڑتے پرندے اچھے تو لگتے ہیں لیکن جیسے ہی وہ ان کی پہنچ میں ہوں تو ان پرندوں کو قید کرنے کی چاہ میں ہوتے ہیں ۔
دوسری جانب جہاں علیزے کی ماں دقیانوسی خیالات کی ملک ہے تو وہیں اس کی چھوٹی بہن رمزا خاندانی رسم و رواج سے باغی ہے بلاشبہ بہت سے معاملات میں وہ حق پر ہوتی ہے لیکن اس کا طرز عمل ایک الجھی ہوئی کنفیوز لڑکی کی عکاسی کرتا ہے جو نہ جھکنا پسند کرتی ہے اور نہ خاندانی رسم و رواج کیلئے قربانی دینے کی قائل ہے وہ ہر ممکن کوشش کرتی ہے علیزے کو اس کے مغرور اور چالاک شوہر سے چھٹکارا مل جائے ۔ جس طرح آئے دن سوشل میڈیا پر ڈراموں میں عورت کے حوالے حقیقت یا منفی کردار پر تنقید کی جاتی ہے اسی طرح یہ کردار بھی ہمارے معاشرے کے اس سوچ کی عکاسی ہے جس کی وجہ سے رشتوں میں سمجھوتہ نامی لفظ کا خاتمہ ہوتا رہا ہے اور ہر سال طلاق کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے ۔
آخری قسط
گزشتہ روز ڈرامہ سیریل جیسی آپکی مرضی کی آخری قسط نشر ہوئی تو بہت سے مداحوں نے اس اختتام کو پسند کیا جن کا خیال ہے کہ ایک نشہ آور شخص سے بریک اپ بذات خود ایک خوش کن اختتام ہے، مداحوں نے علیزے کی بہادر فیصلہ لینے پر تعریف کی تاہم دوسروں نے مشورہ دیا کہ علیزے اپنے بیٹے کی خاطر شیری کے ساتھ صلح کر سکتی تھی۔ مداحوں نے سسر کی مرضی پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ غیر حقیقت پسندانہ ہے کیونکہ خواتین شاذ و نادر ہی اپنی جائیداد کی وارث ہوتی ہیں ایسے میں کچھ شائقین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اختتام کافی بورنگ تھا۔
ڈرامے میں یہ بھی محسوس ہوا کہ سب کچھ کتنا حقیقت پسندانہ ہے، کس طرح بہت سے معاملات میں مائیں بغیر کچھ معلوم کئے اپنی بیٹیوں کے خلاف ہوجاتی ہیں، جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی جا رہی ہے تو لوگوں میں اضطراب پیدا کیا جا رہا ہے، شیری آرام سے اپنے منصوبے پر کام کر رہا ہے اور علیزے اب صحیح اور غلط بتانے کے قابل نہیں ہے۔
علیزے کے آزادانہ خیالات کو قید کرنے سے لے کر اس کی ملازمت سےآزادی تک، شیری نے ایک کے بعد ایک چالیں چلیں، علیزے جس صورتحال سے گزری وہ ہمارے معاشرے میں بہت سی خواتین کے لئے ایک تلخ حقیقت ہے اور یہی وجہ ہے جو ڈرامے کی مقبولیت کا سبب بن رہی ہے کیونکہ یہ ایک ایسی دل دہلا دینے والی حقیقت ہے جسے ہمارے ارد گرد بے شمار خواتین برداشت کرتی ہیں اور نہ چاہتے ہوئے زندگی کو جینے کے بجائے تعلق نبھارہی ہوتی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اجیرن زندگی گزارنے سے طلاق لے کر چھٹکارا حاصل کرنا بہتر ہے لیکن ایک پہلو یہ بھی غلط نہیں ہے کہ محبت اور رشتوں کے توازن کو برقرار رکھنے میں دو فرد کے درمیان بھروسہ خلوص اور سمجھوتے کی باریک دوڑیں ہوتی ہیں اگر اس میں برابری کا مقابلہ کیا جائے تو یہ ڈوریں ٹوٹ جاتی ہیں، نتیجاً اس دوڑ کو ٹوٹنے سے بچانے اور ایک کو خوش کرنے کیلئے کسی دوسرے کو اپنا آپ، اپنی صلاحیت اور خواہش کو تباہ کرنا پڑتا ہے اور یہی کچھ ڈرامے میں مزید دکھایا جانے والا ہے یہ یوں کہیں ڈرامے کا اسپوائلر ٹائٹل سانگ میں پہلے ہی بتادیا گیا ہے تو غلط نہ ہوگا کہ
ذرا زرا مجھے تباہ کرکے تجھے کیا ملا
تنقیدی جائزہ
ڈرامے میں موجود تقریبا ہر اداکار نےاپنے کردار کے ساتھ انصاف کرنے کی کوشش کی ہے، کہانی بہت منفرد یا نئی تو نہیں ہے لیکن بیان کرنے کا انداز متاثر کن ہے ۔
ڈرامے کی مصنفہ اور ہدایت کار نے بے شک اپنی تخلیقی صلاحیت کا فن دیکھنے والوں تک پہنچایا ہے، ڈرامے کی عکس بندی میں بعض جگہ جھول دکھائی دیئے گئے لیکن اگلے منظر کو اتنی گہرائی کے ساتھ حقیقت پسندانہ طور پر دکھایا گیا کہ اس نے گزشتہ عیب پر پردہ ڈال دیا ۔