دنیا بھرمیں کمزور معیشتوں کو بڑھتے ہوئے قرضوں کا سامنا ہے۔ برطانوی جریدے اکنامسٹ نے اس سلسلے میں موجودہ سال کی کیفیت اور آئندہ سال کے امکانات کے حوالے سے ایک مختصر تجزیے میں بتایا ہے کہ پسماندہ ممالک کی مشکلات کم ہوتی دکھائی نہیں دیتیں۔
اکنامسٹ لکھتا ہے کہ 20 سال قبل بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے قرضوں میں ڈوبے ہوئے ممالک کے لیے چند اہم اقدامات کیے تھے۔ جو ممالک اپنے قرضے چکانے کی پوزیشن میں نہیں تھے ان کے قرضوں کو ری اسٹرکچر کردیا گیا۔ حکومتوں اور مرکزی بینکوں نے یہ عمل امیدوں اور توقعات کے ساتھ دیکھا۔
قرضوں تلے دبے ہوئے ممالک نے اپنے قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کے عوض آزاد منڈی کی معیشت سے متعلق چند اہم اصلاحات متعارف کرانے پر آمادگی ظاہر کی۔ یہ اصلاحات ترقی یافتہ ممالک نے سوچ سمجھ کر وضع کی تھیں اور ان کے نفاذ سے وہ مزید مضبوط ہوگئے۔
”ہیویلی انڈیٹیڈ پوئر کنٹریز“ کے زیر عنوان خصوصی پروگرام کے تحت انتہائی مقروض اور غریب ممالک کے بیشتر ایسے قرضے ختم کردیے گئے جنہیں وہ ادا کر ہی نہیں سکتے تھے۔
اب ایسا کوئی بھی پروگرام مالیاتی افق پر دکھائی نہیں دے رہا۔ 2024 میں دنیا اس نوعیت کے تمام اقدامات کو دم توڑتا ہوا دیکھے گی۔ جیو پالیٹکس اب قرض دینے والے ممالک کے ہر اجلاس میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔
چین اس وقت قرضے دینے والا سب سے بڑا ملک ہے مگر مشکل یہ ہے کہ وہ قرضے جاری کرنے کے حوالے سے مغربی دنیا کے طے کردہ اصولوں کو تسلیم کرنے اور ان پر عمل پیرا ہونے سے انکاری ہے۔ تین سال قبل چین نے چند قرضے ختم (معاف) کرنے پر رضامندی ظاہر کی مگر اب تک حوصلہ افزا اقدامات سامنے نہیں آئے۔
برطانوی جریدہ مزید لکھتا ہے کہ قرضے جاری کرنے والے ممالک کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر رہے ہیں۔ ان کی باہمی مسابقت اور مخاصمت کے باعث انتہائی غریب اور مقروض ممالک کو خاصی بے چارگی سے اچھے وقت کا انتظار کرنا پڑے گا۔