اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس کا ٹرائل روکتے ہوئے 11 جنوری تک اسٹے آرڈر جاری کردیا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ان کیمرہ ٹرائل کے خلاف درخواست پرعبوری حکم جاری کردیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس کا ٹرائل روکنے کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے 9 صفحات پر مشتمل تحریری آرڈر جاری کیا۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ 4 ہفتے میں ٹرائل مکمل کرنے کا حکم کالعدم قرار دے چکی ہے جس کے باوجود روزانہ سماعت ہو رہی ہے، اس لئے ٹرائل کی کارروائی 11 جنوری تک روکنے کا حکم دیا جاتا ہے۔
حکم نامے کے مطابق اٹارنی جنرل نے بتایا 21 دسمبر تک ان کیمرہ ٹرائل میں 13 گواہان کے بیانات ریکارڈ کئے گئے جبکہ 13 میں سے 4 گواہان دفتر خارجہ کے سائفر سیکیورٹی سسٹم سے منسلک ہیں جن کےبیانات خفیہ ریکارڈ کرنا اہم ہے، عدالت سمجھتی ہے بقیہ 9 گواہان کے ان کیمرہ بیانات قانون کے مطابق نہیں ، جائزہ لینا ضروری ہے۔
حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ اٹارنی جنرل کے مطابق 21 دسمبر کے بعد اوپن ٹرائل میں 12 گواہان کے بیانات ریکارڈ ہوئے، محض پراسیکیوشن کی درخواست پر اوپن ٹرائل کو ان کیمرہ نہیں کیا جا سکتا، ان کیمرہ ٹرائل میں 9 گواہان کے دوبارہ ریکارڈ کرنے کو حتمی فیصلے میں دیکھا جائے گا۔
عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ سائفر ٹرائل میں خصوصی عدالت نے گواہان کے بیانات کی مصدقہ کاپیز جاری کیں، عدالت مصدقہ کاپیزسےجائزہ لےگی کہ ریاست کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے یا نہیں۔
اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر مقدمے کی سماعت ان کیمرہ ہونے کے خلافدرخواست کی سماعت کے دوران جیل ٹرائل پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیسے سماعت کے دوران چند افراد کو کمرہ عدالت میں بیٹھا کر اسے اوپن ٹرائل قرار دیا جاسکتا ہے۔
سابق چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے سائفر کیس میں 12 دسمبر کو دیے گئے آرڈر کے خلاف درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب درخواست پر سماعت کی۔
دورانِ سماعت سابق چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل عدالت کے سامنے پیش ہوئے، اٹارنی جنرل منصور اعوان بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
اس دوران عمران خان کی بہنیں بھی کمرہ عدالت میں نظر آئیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ سابق وزیراعظم عمران خان کی اڈیالہ جیل میں سائفر ٹرائل کی ان کیمرہ کارروائی کے خلاف درخواست کی سماعت کر رہی ہے۔
دورانِ سماعت سابق چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے 12 دسمبر کا عدالتی آرڈر پڑھ کر سنایا اور کہا کہ سیکشن 13 کی سب سیکشن 3 کے مطابق عدالتی کارروائی نہیں ہو رہی۔
وکیل عمران خان نے کہا کہ قانون میں لفظ کمپلینٹ کا ذکر کیا گیا ایف آئی آر کا ذکر نہیں کیا گیا، یہ اسپیشل قانون ہے اور اسی کے تحت عدالتی کارروائی ممکن ہے۔
جسٹس گل حسن اورنگزیب نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کا پوائنٹ کیا ہے؟ کون سا تقاضا پورا نہیں کیا گیا؟
جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ یہ معاملہ پہلے ایک درخواست میں بھی سامنے آیا تھا، پراسکیوشن کے مطابق کابینہ کی منظوری کے بعد کیس فائل کیا گیا۔
جس پر وکیل نے کہا کہ درخواست کی سپورٹ میں کافی سارے عدالتی فیصلے موجود ہیں، ایف آئی آر ہمیشہ سکیشن 154 کے تحت ہوتی ہے۔
وکیل نے کہا کہ حکومت کی منظوری سے ایک کمپلینٹ درج کی جانی چاہیے تھی، سابق چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف کیس میں ایف آئی آر درج کی گئی، شکایت مجسٹریٹ کو نہیں بھجوائی گئی۔
وکیل عمران خان نے کہا کہ یہاں کمپلینٹ فائل ہی نہیں ہوئی بلکہ ایف آئی آر درج ہوئی۔
جس پر عدالت نے کہا کہ یہ نوٹیفکیشن تو سیکشن 13 (6) کے تقاضے پورے کرتا ہے۔
وکیل درخواستگزار نے جواب دیا کہ لیکن عدالت اس معاملے کوسمجھ نہیں سکی، 25 گواہوں کے بیانات ہوچکے ہیں تین پر جرح ہوچکی، استدعا ہے کہ عدالت ٹرائل کورٹ کی کارروائی روک دے۔
جس پر جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ پہلے نوٹس جاری کریں گے اس کے بعد عدالت اس کو دیکھے گی۔
عدالت نے ایف آئی اے کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کرلیا۔
چئیرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے سائفر ٹرائل پر حکم امتناع دینے کی استدعا کی، جس پر عدالت نے کہا کہ پہلے نوٹس ہوں گے، اور سائفر ٹرائل پر حکم امتناع کی فوری استدعا مسترد کردی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا سنگل بنچ عمران خان کی جس درخواست کی سماعت کر رہا ہے ، اس میں جیل میں ان کے ڈی نوو ٹرائل اور اس کے بعد ہونے والی پیش رفت کو چیلنج کیا گیا ہے، جس میں فرد جرم اور میڈیا پر گیگ آرڈر شامل ہیں۔
پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین نے سائفر کیس میں اپنے فرد جرم اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت کی طرف سے پوری کارروائی کو چیلنج کیا تھا۔ 12 دسمبر کو خصوصی عدالت نے ڈپلومیٹک کیبل (سائفر) کیس میں سابق وزیراعظم پر فرد جرم عائد کی تھی۔
دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی کی جانب سے ٹکٹ تقسیم کرنے کیلئے جیل میں عمران خان سے مشاورت کی اجازت کے لیے درخواست پر بھی سماعت ہوئی اور یہ سماعت بھی جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کی۔
تحریک انصاف کے وکیل شعیب شاہین عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
وکیل شعیب شاہین نے عدالت کو بتایا کہ ہمیں ایک کاغذ کا ٹکڑا جیل میں لے جانے کی اجازت نہیں۔
جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کون آپ سے کاغذ لے لیتا ہے۔
شعیب شاہین نے عدالت کو کہا کہ سابق چیئرمین پی ٹی آئی سے ٹکٹس پر مشاورت کرنی ہے۔
جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ کی استدعا واضح نہیں ہے۔
شعیب شاہین نے کہا کہ ہماری استدعا ایک لائن کی ہے، جیل میں عمران خان سے ملنے کی اجازت دی جائے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ پٹشںنر کا کیا اسٹیٹس ہے؟ جس پر شعیب شاہین نے بتایا کہ بیرسٹر گوہر بطور چیئرمین بحال ہوچکے ہیں۔
عدالت نے درخواست پراعتراضات دور کرکے نمبرلگانے کی ہدایت کی اور کہا جلد درخواست سماعت کے لیے مقرر کریں۔
ایڈووکیٹ شعیب شاہین نے کہا کہ ہمیں الیکشن ٹکٹوں پر عمران خان سے مشاورت کرنی ہے وہ ہمارے لیڈر ہیں۔ جس پر عدالت نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے ان کے پاس پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں ہے۔
شعیب شاہین نے جواب دیا کہ بس یہ بات لکھتے ہوئے ہماری درخواست مسترد کردی، بیرسٹر گوہر بطور چیئرمین، بانی سے مشاورت کرنا چاہتے ہیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سائفر کیس کی ان کیمرہ سماعت کے آرڈر کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔
عمران خان کے وکیل سکندر ذوالقرنین، اٹارنی جنرل منصور اعوان اور اسپیشل پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 25 گواہوں کے بیانات قلم بند ہو چکے ہیں، تین پر جرح ہو چکی ہے۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ دس گواہوں کے بعد ان کیمرہ ٹرائل شروع ہوا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میڈیا کو کارروائی میں جانے کی اجازت نہیں تھی، ایک یا دو فیملی ممبر کی موجودگی ہو تو اس کا مطلب ہے کلوز ٹرائل ہے۔
جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ جس طرح کارروائی آگے بڑھائی جا رہی ہے مجھے کچھ تحفظات ہیں، ٹرائل ہونا چاہیے لیکن کلوز ڈور پروسیڈنگ کوعدالت نے دیکھنا ہے۔
جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ان کیمرہ کے حوالے سے سیکشن 14 کا آرڈر فیلڈ میں ہے اس کی موجودگی میں کیا ہوا عدالت بڑی کلئیر ہے، سیکورٹی کے حوالے سے دیکھنا ہماری ڈومین نہیں ہے ۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے مزید کہا کہ گزشتہ سماعت کے مطابق ٹرائل جیل میں ہوگا تو اوپن ہوگا، اب صورتِ حال تبدیل ہوئی ہے کہ جیل ٹرائل ان کیمرہ ٹرائل ڈیکلیئر کر دیا گیا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ ان کیمرہ کا سیکشن 14 کا آرڈر فیلڈ میں ہے اس کی موجودگی میں کیا ہوا؟
جس پر اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا کہ تین حصوں میں تقسیم کر رہا ہوں، 15 دسمبر سے 21 دسمبر تک 13 گواہوں کے بیانات ہوئے دو پر جرح ہوئی، 21 دسمبر کے بعد گواہوں کے بیانات میڈیا کی موجودگی میں ریکارڈ ہوئے۔
اسلام اباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے درخواست کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ جب ہائی کورٹ نے سائفر کے مقدمے کا ٹرائل اوپن کرنے کا کہا تو کس بنیاد پر متعلقہ عدالت کے جج محض تین سماعتوں کے بعد اسے ان کیمرہ ٹرائل ڈیکلیر کر سکتے ہیں۔
عدالت کا کہنا تھا کہ اوپن ٹرائل کیا ہے یہ واضح کر چکے۔ جسٹس میاں گل اورنگ زیب کا کہنا تھا کہ تم آ جاؤ اور تم آ جاؤ، یہ اوپن ٹرائل نہیں ہوتا اور اوپن ٹرائل میں جو چاہے آ سکتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ میڈیا کو اجازت ہے کہ جو چاہے آ سکتا ہے جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ ایسے نہیں ہوتا اس بارے میںباقاعدہ آرڈر ہونا چاہئے۔انہوں نے مزید کہا کہ 1923 میں انسانی بنیادی حقوق دنیا کو معلوم نہیں تھے، یہ میرے سامنے فرسٹ ایمپریشن کا کیس ہے، اسٹیٹ کی سیفٹی کمپرومائز نہیں ہونی چاہیے، سپریم کورٹ کا فیصلہ دیکھیں وہ کہہ رہے ہیں میٹریل ناکافی ہے۔
جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسٹیٹ کا مؤقف ہے تین ایسے گواہ تھے جن کا بیان نشر نہیں کیا جانا چاہئیے تھے، ان گواہان کے بیانات پندرہ دسمبر کو ریکارڈ کئے گئے، تین گواہان کے بیانات کی تفصیلات عدالت میں پیش کریں۔
جس پر عدالت نے کہا کہ بارہ دیگر گواہان کے بیانات بھی تو کلوزڈ ڈور ٹرائل میں ہوئے ہیں نہ، آپ سمجھتے کیوں نہیں ہیں، ہم نے آپ کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اوپن ٹرائل کیا ہوگا۔
جسٹس گل حسن نے مزید کہا کہ ہماری کوشش ہوتی ہے قانون سے متعلق لکھیں، اس معاملے میں بھی تہہ تک جانے کی کوشش ہے، یہ دنیا بھر میں قانون کی منشا ہے۔
جسٹس میاں گل حسن نے کہا کہ غلام محمد کیس کا فیصلہ جب آیا اورسپریم کورٹ نے ضمانت دی تو ان کے سامنے کیا حقائق تھے؟
جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے سامنے 13 گواہان کے بیانات تھے، سپریم کورٹ ضمانت کا معاملہ دیکھ رہی تھی۔
جسٹس میاں گل حسن نے کہا کہ بس اب میری وضاحت ہوگئی، سپریم کورٹ نے کہا ضمانت نہ دینے کیلئے کافی مواد نہیں۔
جسٹس گل حسن نے کہا کہ کبھی کبھی اچھا بھلا کیس ہوتا ہے لیکن جس طریقے سے چلایا جاتا ہے خراب ہوجاتا ہے۔
پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے کہا کہ سائفر ان کیمرہ ٹرائل کے خلاف درخواست قابل سماعت نہیں، میں عدالت کی اس معاملے پر معاونت کروں گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سائفر ٹرائل کے لیے 14 دسمبر کو حکم ہوا اور 15 دسمبر کو ٹرائل شروع ہوا، اگرعدالت چاہتی ہے کہ جرح ہو تو ہو جائے گی، یہ عدالت نہیں کہہ رہی یہ ضرورت ہے کہ ٹرائل اوپن ہو اور یہ پوری دنیا میں ہوتا ہے، یقین دہانی کراتا ہوں کہ ان کیمرہ جرح صرف ان 4 گواہان کی ہوگی جو دفتر خارجہ کے سائفر سیکیورٹی سے جڑے ہیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ کیا یہ چاروں گواہان دفتر خارجہ کے ملازمین ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ چاروں گواہان دفتر خارجہ کے ملازمین ہیں، چاروں گواہان سائفر ٹرانسکرپٹ کرنے اور سائفرسیکیورٹی سسٹم سے جڑے ہیں، ان ملازمین کا کام پوری دنیا سے سائفر ڈی کوڈ کرنا ہے، سائفر سسٹم کیسے کام کرتا ہے یہ تفصیلات پبلک کے سامنے نہیں لائی جا سکتیں۔
اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا کہ 13 میں سے جو باقی 9 گواہان ہیں ان کی جرح دوبارہ کر لیں گے، اگر عدالت 13 میں سے 9 گواہان کے بیانات کالعدم قرار دیتی ہے تو دوبارہ ہوں گے۔
جس پر جسٹس میاں گل حسن نے کہا کہ ایسے تو یہ گواہان تیسری بار ایگزیمن ہوں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا ”بیچارے“ لیکن یہ تمام حکام ہیں تو بیان ریکارڈ کر لیں گے۔
عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل نے کہا تین گواہوں کے بیانات کو سیکریٹ رکھنا تھے اور جن لوگوں کے بیانات کو سیکریٹ کو رکھنے کا کہا جارہا ہے وہ انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گواہان کے بیانات کی سرٹیفائیڈ عدالتی فیصلے میں سب کچھ لکھا ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا سرٹیفائیڈ کاپی آپ کے پاس ہے؟ جس پر عمران خان کے وکیل نے یہ کاپیاں جلد عدالت کو فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی۔
عدالت نے اس درخواست کی سماعت گیارہ جنوری تک ملتوی کردی۔