پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بینظیر بھٹو کو اس دنیا سے گئے 16 سال بیت گئے، مسلم دنیا کی پہلی اور پاکستان کی واحد وزیراعظم رہنے والی بینظیر عوام وخواص سبھی کی یادوں میں زندہ ہیں، ان کے بہت سے قریبی ساتھی جو اب پارٹی کا حصہ نہیں رہے وہ بھی ان کی کرشماتی شخصیت کے معترف ہیں۔
بھٹو نے انہیں اپنا سیاسی جانشیں قرار دیا تھا اور وقت نے یہ فیصلہ درست ثابت کیا۔بینظیر کی پرسنل سکریٹری ناہید خان اُن کے سب سے زیادہ قریب تھیں جو جلا وطنی کے دنوں میں بھی کافی عرصہ تک ان کے ساتھ رہیں۔
بینظیر کی برسی کے موقع پر کچھ پرانی یادیں تازہ کرنے والی ناہید خان نے بتایا کہ ینظیر بھٹو اپنی سالگرہ کی تقریب نجی رکھتی تھیں، تقریب مین صرف ان کی چند دوستیں ہوتی تھیں۔ پاکستان میں اپنی آخری سالگرہ انہوں نے جلا وطنی سے قبل کوکو نٹ گروو نامی ایک ریسٹورنٹ میں منائی تھی جو اب بند ہوچکا ہے، بی بی اس دن سُرخ لباس میں ملبوس تھیں۔ انہیں میٹھا پسند تھا اور لطائف بہت سُنایا کرتی تھیں۔
بچوں کے حوالے سے سوال پر ناہید خان کا کہنا تھا کہ ہرماں کی طرح بینظیر کو بھی اپنے بچوں سے بے انتہا پیارتھا، وہ بلاول اور آصفہ کے نام لیتی تھیں لیکن بختاور کا نِک نیم ’اِٹی‘ رکھا ہوا تھا۔ بچوں کے اسکول اور دوستوں پر نظر رکھتی تھیں پاکٹ منی کے حوالے سے پوچھتی تھیں کہ کہاں خرچ کیا۔
انہوں نے کہا کہ بہن صنم بھٹو کے ساتھ بینظیر کی بہت دوستی تھی اور بھتیجی فاطمہ کے ساتھ ان کا بہت پیار تھا اور چاہتی تھیں کہ اسے سیاست میں آگے لیکر آئیں۔ مرتضیٰ بھٹو قتل ہوئے تو ننگے پاؤں بھاگیں اور اسپتال میں بھائی کے پیروں کے ساتھ لپٹ کر روئیں۔
آصف زرداری کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ناہید خان نے بتایا کہ شادی کے بعد زرداری صاحب 11 سال جیل میں رہے ہھر وہ جلا وطن ہوگئیں اور زرداری صاحب جیل میں چلے گئے تھے، تو بینظیر کی توجہ زیادہ سیاسی سرگرمیوں پر رہی۔ وہ ذو الفقارعلی بھٹو کو پاپا کہتی تھیں اور ان کی شخصیت سے بہت متاثر تھیں۔
ناہید خان نے بینظیر کی شہادت والے روز لیاقت باغ جلسے کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم اسٹیج پر بیٹھے تو بار بار سامنے دیکھ رہی تھیں، پھر کچھ مخدوم صاحب سے پوچھا جو ان کے ساتھ بیٹھے تھے، میں عقب میں تھی جب مجھے بلا کر پوچھا کہ ان درختوں پر کچھ نظر آرہا ہے، میں نے کہا بی بی وہاں تو کچھ بھی نہیں ہے، کیونکہ دسمبر میں پتے تک گرے ہوتے ہیں، اس پر ہنستے ہوئے کہنے لگیں کہ میں نے ابھی مخدوم صاحب (مخدوم شہاب الدین) سے پوچھا تو انہوں نے بھی یہی کہا۔ اب کراچی جاؤں گی تو یاد کروانا کہ آئی اسپیشلسٹ کے پاس جاؤں لگتا ہے میری نظر کمزور ہورہی ہے۔
ناہید خان کے مطابق ، ’اسجلسے کی ان کو بہت خوشی تھی، مجھے مبارک باد دی تو میرے شوہرصفدرعباسی بھی ساتھ تھے جنہوں نے شکوہ کیا کہ بی بی آپ ناہید کو شاباش دے رہی ہیں لیکن مجھے نہیں تو اس پر وہ ہنس پڑیں اور کہا کہ سارا کریڈٹ ناہید کوجاتا ہے، انہوں نے مجھے گلےسے لگا کرپیار کیا‘۔
’پھر وہ گاڑی کے سن روف سے باہر نکلیں اور صفدر سے بولیں کہ زور دار نعرے ہونے چاہئیں۔ صفدر نے میگا فون پر نعرے لگانے شروع کر دیے جس کے بعد بی بی پر اٹیک ہوا اور جب انہیں گولی لگی تو وہ گاڑی کے اندر میری ہی گود میں آ کر گریں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ، ’گاڑی جلسہ گاہ سے نکل رہی تھی تو بونٹ کے اوپر بھی لوگ چڑھ گئے تو بی بی کہنے لگیں یہ بیچارے اندر دیکھنے کی کوشش کررہے ہیں تو میں کھڑی ہوجاتی ہوں، انہوں نے صفدرسے انگلش میں کہا، ’صفدر واٹ اباؤٹ سم نعراز؟ ’ انہیں نعرے لگانے کے لیے میگا فون دیا اور خود سن روف سے نکل کر کھڑی ہوگئیں، اس دم مجھے فائر کی آواز آئی اورسیکنڈز میں مجھے لگا میری گود مین کوئی چیز گری ہے۔ وہ میرے اوپر گری تھیں میں نہیں بتا سکتی کہ ان کا خون کیسے بہہ رہا تھا۔ صفدر نے خون روکنے کو کہا میں نے اپنا دوپٹہ ان کے سرپر رکھا اور اس دوران وہ ایک لفظ نہیں بول سکیں‘۔