ایک ایڈوکیسی گروپ اور افغان درخواست دہندگان کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کی ملک بدری کی مہم نے امریکا میں آباد کاری کے منتظر متعدد افغانوں کو وطن واپس بھیج دیا ہے، انہوں نے الزام عائد کیا کہ پاکستانی حکام اکثر امریکی سفارت خانے کے تحفظ کے خطوط کو نظر انداز کرتے ہیں۔
غیرملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق افغان ایویک (AfghanEvac) کے صدر شان وان ڈیور نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ میں خصوصی امیگریشن ویزوں یا پناہ گزینوں کی باز آباد کاری کے لیے منتظر کم از کم 130 افغانوں کو ملک بدر کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے اتحادی ارکان کے اعداد و شمار اور اسلام آباد کے سفارت خانے کی جانب سے امریکی حکومت کو فراہم کردہ تفصیلات کا حوالہ دیا جو انہوں نے دیکھنے کا دعویٰ کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی پولیس نے ایسے 230 سے زائد افغانوں کو حراست میں لیا ہے، اور تقریبا 80 کو رہا کر دیا گیا ہے۔
غیرملکی میڈیا کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سینئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ امریکہ کے پاس ’اس قسم کے کیسز کا سراغ لگانے کا کوئی باضابطہ طریقہ نہیں ہے‘، انہوں نے مزید کہا کہ امریکی آباد کاری کے انتظار میں ملک بدر کیے جانے والے افغانوں کی تعداد ’بہت کم‘ ہے۔
میڈیا رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ اس حوالے سے پاکستان کی وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ نے تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ جب یکم نومبر کو ڈیڈلائن کا وقت تھا تو سفارت خانے نے تقریبا 25 ہزار افغانوں کو حفاظتی خطوط ای میل کیے تاکہ پاکستانی حکام کو یہ ثابت کیا جا سکے کہ 2021 میں کابل سے اپنی آخری افواج کے انخلا کے بعد انہیں امریکا میں آباد کاری کے لیے ضروری کارروائی کی جا رہی ہے۔
غیرملکی میڈیا کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا کہ اکتوبر میں ملک بدری کے منصوبے کا اعلان کرنے کے بعد واشنگٹن نے پاکستان کو ’امریکی آباد کاری کے منصوبے میں موجود افغانوں‘ کی فہرست بھی فراہم کی تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ وان ڈیور اور دو مغربی سفارتی ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مقامی حکام نے کئی مواقع پر ان خطوط کو نظر انداز کیا ہے۔ ’کچھ معاملات میں خطوط اہمیت رکھتے ہیں اور کچھ میں نہیں۔
اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے سینئر عہدیدار نے کہا کہ امریکہ کے پاس پاکستانی پولیس کی جانب سے خطوط کا احترام کرنے کی مثالیں موجود ہیں لیکن انہوں نے اس کی کوئی تفصیلات نہیں دیں۔
روئٹرز نے دو افغان خاندانوں سے بات کرنے کا دعویٰ کیا، جن کے افراد کو پولیس کو خط دکھانے کے بعد ملک بدر کر دیا گیا تھا اور ایک افغان جسے خط کے باوجود حراست میں لیا گیا تھا۔ دوسرے خاندان نے کہا کہ انہیں اس انتباہ کے ساتھ رہا کیا گیا تھا کہ انہیں ویزا میں توسیع کے بغیر دوبارہ حراست میں لیا جائے گا۔
پناہ گزینوں کے حامیوں اور افغانوں کا کہنا ہے کہ ملک بدری اور گرفتاریاں ان افغانوں کے طویل انتظار کی غیر یقینی نوعیت کی نشاندہی کرتی ہیں جنہیں واشنگٹن نے تحفظ فراہم کرنے اور دوبارہ آباد کرنے کا وعدہ کیا ہے۔