متحدہ عرب امارات میں 74 فیصد ملازمین کا کہنا ہے کہ مستقبل کی ورک فورس کے لیے مصنوعی ذہانت ترقی کے غیر معمولی مواقع پیدا کرے گی۔
یو اے ای کی ورک فورس میں شامل 54 فیصد افراد ٹیکنالوجی اور ڈجیٹل مہارتوں کی اہمیت کے قائل ہیں تاہم وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ ان کی رسمی تعلیم نے انہیں آج کی دنیا میں زیادہ کارگر انداز سے کام کرنے کے لیے تیار نہیں کیا۔
”سروس نائو“ نے ایک نئی اسٹڈی کے نتائج جاری کیے ہیں۔ اس استڈی کا بنیادی مقصد پرسنل کریئر اور ورک پلیس کے حوالے سے ٹیکنالوجی اور ڈجیٹل مہارتوں کے بارے میں ملازمین کی مجموعی رائے معلوم کرنا تھا۔
جن لوگوں کا سروے کیا گیا ان میں سے 79 فیصد نے کہا کہ ڈجیٹل مہارتیں کاروبار میں بالادستی یقینی بنارہی ہیں جبکہ 84 فیصد نے کہا کہ صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے میں انہیں نئی ٹیکنالوجیز سے غیر معمولی مدد مل رہی ہے۔
”سروس نائو“ کی اسٹڈی کے لیے یو اے ای، فرانس، جرمنی، آئر لینڈ، اٹلی، سوئیڈن، سوئٹزر لینڈ اور دی نیدر لینڈز (ہالینڈ) اور برطانیہ میں 18 سال سے زائد عمر کے 5500 ملازمین کا سروے کیا گیا۔ یو اے ای کے ملازمین کا مجوعی رجحان نئی ٹیکنالوجیز اور ڈجیٹل مہارتوں کے حوالے سے غیر معمولی مثبت دکھائی دیا۔
سروے میں 74 فیصد افراد نے ڈجیٹل مہارتوں اور مصنوعی ذہانت کو بہتر معاشی امکانات یقینی بنانے کے لیے سنہرے موقع سے تعبیر کیا۔ واضح رہے کہ یو اے ای کے سوا سروے میں شریک تمام ممالک کے رائے دہندگان کی رائے کم مثبت رہی۔
یو اے ای کے 82 فیصد رائے دہندگان نے کہا کہ نئی تعلیم اور اضافی مہارتوں کے ذریعے جدید ٹیکنالوجیز اور مہارتوں سے زیادہ استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ یو اے ای میں 72 فیصد رائے دہندگان نے کہا کہ 18 سال سے کم عمر افراد کے لیے مصنوعی ذہانت کے حوالے سے رسمی تعلیم لازمی قرار دی جانی چاہیے۔
71 فیصد نے کہا کہ کوڈنگ بھی لازمی قرار دی جائے۔ 72 فیصد نے یہ بھی کہا کہ ملازمین جن ڈجیٹل مہاتوں کو پہچانتے ہیں ان کا ایک عمومی معیار متعین کیا جانا چاہیے۔
یو اے ای کے 81 فیصد ملازمین نے کہا کہ ورک فورس میں مصنوعی ذہانت کے حوالے سے مہارت پیدا کرنا اور اسے فروغ دینا اداروں کی ذمہ داری ہونا چاہیے۔
”سروس نائو“ میں نائب صدر برائے مشرق وسطیٰ و افریقا مارک ایکرمین کا کہنا ہے کہ اس سروے سے ملازمین کے مثبت رجحاجات کا اندازہ ہوا جو حوصلہ افزا امر ہے۔ اداروں کو متعلقہ سرمایہ کاری یقینی بنانی چاہیے اور ملازمین کی مہارت میں اضافے کے لیے بھی کوشاں رہنا چاہیے۔