پاکستان میں الیکشن کمیشن کی جانب سے دی گئی تاریخ کے تحت عام انتخابات آٹھ فروری کو ہونا قرار پائے ہیں، ایسے میں اکثریت کی طرح اقلیت بھی نہ صرف اپنے ووٹ ڈالنے کے حق کو استعمال کرنے کے حوالے سے پرعزم دکھائی دیتی ہے، بلکہ وہ ایوانوں میں بھی اپنے نمائندگان کو زیادہ تعداد میں دیکھنے کے خواہاں ہیں تاکہ ان سے جڑے مسائل کو بھی اسمبلی کے فلور پر نہ صرف بہتر طریقے سے پیش کیا جائے بلکہ ان کے حل کے لئے قرار واقعی اقدامات بھی کئے جائیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جون 2022 کی ووٹر لسٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت مذہبی اقلیتوں کے کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 39 لاکھ 56 ہزار 336 ہے، جس میں مردوں کے رجسٹرڈ ووٹ 21 لاکھ 52 ہزار 143 ہیں جبکہ خواتین کے رجسٹرڈ ووٹ 18 لاکھ 41 ہزار 193 ہیں۔
’وقت آگیا ہے کہ آبادی کی بنیاد پر اقلیتوں کے لیے نشستیں مختص کرائی جائیں اور اقلیتی عوام کو براہ راست اپنے ووٹ سے اپنے نمائندوں کے انتخاب کا حق دیا جائے۔‘
یہ کہنا تھا پاکستان ہندو کونسل کے سرپرست اعلیٰ اور قومی اسمبلی میں اقلیتوں کی نشست کے سابق رکن ڈاکٹر رمیش کمار ونکوانی کا۔
ان کے مطابق آبادی کی بنیاد پر اقلیتوں کے لیے نشستیں مختص کرنے اور آزاد جموں کشمیر کی طرح اقلیتی برادری کو ووٹ کے دہرے حقوق دینے کے حوالے سے وہ گزشتہ دس سال سے جدوجہد کر رہے ہیں۔
رمیش کمار کہتے ہیں پاکستان میں کل آبادی کا 6 فیصد سے زائد اقلیتوں پر مشتمل ہے، اس دوران اقلیتوں کے لیے مختص نشستوں میں اضافہ نہیں کیا گیا جبکہ اس کی نسبت عام نشستوں کو نمایاں اضافے کے ساتھ بڑھایا گیا ہے جو مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
کسی بھی ملک میں معاشی اور سیاسی استحکام کے لئے جمہوریت نہایت ضروری ہے اور جمہوریت کو پروان چڑھانے کے لئے صاف شفاف انتخابات لازم و ملزوم ہیں، الیکشن جمہوریت کے فروغ کے لئے ایک ایسی ہی سرگرمی ہے جس میں ملک میں بسنے والے تمام افراد کی بلا تفریق نمائندگی ضروری ہے۔
عام انتخابات میں مرد اور خواتین کو الیکشن لڑنے کاموقع دیا جاتا ہے اور کامیابی کے بعد وہ عوام کے براہ راست منتخب نمائندے بن کر نہ صرف ایوان میں نمائندگی کرتے ہیں بلکہ حلقے کے لوگوں کے مسائلے پر آواز بھی اٹھاتے ہیں۔
مگر بدقسمتی سے اس تمام تر سیاسی سرگرمی میں اقلیتوں کو جنرل سیٹ سے محروم کردیا گیا ہے۔
اگر یوں کہیں تو زیادہ مناسب ہوگا کہ انہیں نظر انداز کیا گیا ہے، یعنی اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والا سیاسی امیدوار براہ راست جنرل نشست کے لئے الیکشن نہیں لڑسکتا۔ اگر اس اقلیتی شہری کا تعلق کسی سیاسی پارٹی سے ہے تو اسے مخصوص نشست پر پارٹی ٹکٹ دیا جاتا ہے۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن نے پہلے پانچ اگست 2022 کو حلقہ بندیاں کی تھیں، لیکن ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج شائع ہونے کے سبب الیکشن کمیشن کو قانون کے مطابق نئے سرے سے حلقہ بندیاں کرنا پڑیں۔
مخصوص نشستوں اور اقلیتوں کی نشستوں کو ملا کر اب قومی اسمبلی کی مجموعی 342 نشستیں کم ہو کر 336 رہ گئی ہیں۔
آئین کے آرٹیکل 51 اور 106کے مطابق قومی اسمبلی میں غیر مسلموں کے لئے 10 نشستیں مخصوص کی گئی ہیں ، اسی طرح خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں 4 ، پنجاب اسمبلی 8 ، سندھ اسمبلی 9 اور بلوچستان اسمبلی میں 3 سیٹوں پر اقلیتوں کی نمائندگی ہورہی ہے۔
1997 سے قبل تک اقلیتوں کے امیدوار براہ راست الیکشن کے مرحلے میں حصہ لیتے تھے، پھر انتخابات میں ووٹرز مسلم اور غیر مسلم ووٹرز تقسیم ہوگئے، جس سے مذہبی اقلیتیں اپنے نمائندے کا انتخاب اپنی مرضی سے کرتی تھیں۔
تاہم جنرل مشرف کے دور، سال 2000 میں اقلیتی برادری کے لئے مشترکہ انتخابی نظام متعارف کروایا گیا جس کو ون بیلٹ سسٹم کہا جاتا ہے، اس سے مراد اقلیتی برادری الگ سے اپنے کسی امیدوار کو ووٹ کاسٹ نہیں کرے گی بلکہ الیکشن کمیشن کی طرف سے دیئے گئے سفید اور سبز رنگ کے بیلٹ پیپر میں سے سفید قومی اسمبلی کے امیدوار جبکہ سبز رنگ کے بیلٹ پیپر کو اپنے حلقے ایم پی اے کے انتخاب کے لئے کاسٹ کریں گے۔
مذہبی اقلیتوں نے اس انتخابی نظام پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا کہ مشترکہ رائے دہندگان کا نظام مسلم سیاسی جماعتوں کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کو اپنے پسندیدہ اقلیتی رہنماوں کے انتخاب کے زریعے اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں پر لے کر آئیں۔
اقلیتی برادری کے مطابق اس میں اکثر مالی پیشکش کی بدولت نمائندگی کا حق حاصل کرتے ہیں جو ایوان میں آکر اقلیت کے مسائل پر بات کرنے کی بجائے اقلیت کے نام پر صرف سیاست کرتے ہیں جس کا نقصان براہ راست عام اقلیت کو اٹھانا پڑتا ہے۔
پشاور میں رہائش پذیر سکھ برادری کے بابا گروپال کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ سکھ کمیونٹی کے زیادہ تر افراد کے ووٹ ہی سرے سے رجسٹرڈ نہیں ہیں، انتخابات سے پہلے یہ ضروری ہے کہ دیگر اضلاع سے مائیگریٹ ہوکر آنے والوں کو رجسٹرڈ کیا جائے تاکہ وہ انتخابی عمل کا حصہ بن سکیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پشاور میں سکھ اکثریتی علاقے جوگن شاہ میں گزشتہ بیس پچیس سال سے کوئی ترقیاتی کام صرف اس لئے نہیں ہوسکا کہ ان کے علاقے سے آج تک کوئی فرد اسمبلی تک نہیں پہنچا۔
وہ اقلیتی برادری کے لئے اپنا نمائندہ خود منتخب کروانے کی خواہش رکھتے ہیں جو ایوان میں ان کی نمائندگی کر سکے اور اس کا تعین مختلف علاقوں میں مذہبی اقلیتوں کی تعداد کو دیکھ کر کیا جانا چاہیے۔
پشاور میں ہی ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے ہارون سرب دیال کہتے ہیں کہ اقلیتوں کو نمائندگی تو حاصل ہے لیکن وہ ناکافی ہے، کیونکہ پورے صوبے کے تمام اضلاع کی چھوٹی چھوٹی کونسلز میں بھی اقلیتی ووٹر موجود ہے جو اپنی نشستوں میں اضافے کے خواہاں ہیں، تاکہ ان کو درپیش مسائل کا حل بخوبی اور فوری ہو۔
بعض اقلیتی رہنما مشترکہ انتخابی نظام کے مخالف ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جداگانہ نظام انتخاب سے اقلیتی عوام اپنے امیدوار براہ راست منتخب کرتے تھے اور وہ ان کے سامنےجوابدہ بھی ہوتے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ اقلیتی برادری کے لئے یہ نظام الیکشن نہیں سلیکشن ہے، جو پارٹی اپنی مرضی سے نامزد کرے وہی پانچ سال کے لئے اقلیت کا نمائندہ ہوتا ہے اسی لئے بیشتر اقلیتی شہری موجود نظام انتخاب میں تبدیلی کے خواہاں ہیں۔
آگسٹن جیکب پشاور کی مسیحی برادری سے تعلق رکھتے ہیں، وہ آبادی میں اضافے کے باوجود مذہبی اقلیتوں کی نشستوں میں اضافہ نہ ہونے پر مایوسی اور تشویش کا اظہار کرتے ہیں جس کے باعث یقینی طور پر ان کے بنیادی اور آئینی حقوق کا استحصال ہو رہا ہے۔
آگسٹن جیکب کا سیاسی جماعتوں سے مطالبہ ہے کہ وہ انتخابات سے پہلے اپنے منشور کو عوام کے سامنے رکھیں تاکہ سیاسی جماعتوں کی مذہبی اقلیتوں کے حوالے سے سنجیدگی کا پتہ چل سکے، وہ بھی اقلیتوں کے حوالے سے جداگانہ انتخاب کو ہی اقلیتی برادری کے مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔
خیبرپختونخوا میں گزشتہ دور حکومت میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اقلیتی نشست پر رکن اسمبلی رہنے والے روی کمار کہتے ہیں کہ 1981 کی مردم شماری میں مذہبی اقلیتوں کی آبادی 27 لاکھ 90 ہزار نفوس پر مشتمل تھی، جس میں مسیحی آبادی 13 لاکھ جبکہ ہندوؤں کی آبادی 12 لاکھ 80 ہزار تھی، جو کُل آبادی کا 1.55 فیصد بنتی تھی۔ احمدی ایک لاکھ، اور سکھ، بدھ مت اور پارسی وغیرہ کی کل آبادی 01 لاکھ 10 ہزار افراد پر مشتمل تھی۔ اسی مردم شماری کے تحت پاکستان میں مسلمانوں کی آبادی 8 کروڑ 14 لاکھ تھی جو کل آبادی کا 96.68 فیصد تھے۔
روی کمار کے مطابق اب اگر 2017 کی مردم شماری کا جائزہ لیا جائے تو اس کے مطابق مذہبی اقلیتوں کی کل آبادی 73 لاکھ 20 ہزار شمار کی گئی ہے، جن میں مسیحی 20 لاکھ 64 ہزار ،ہندو 30 لاکھ 60 ہزار، احمدی 1 لاکھ 9 ہزار شیڈول کاسٹ 8 لاکھ 5 ہزار جبکہ دیگر مذاہب 4 لاکھ ہیں۔
لیکن ان کا شکوہ ہے کہ آبادی میں اضافے کے باوجود انتخابات میں سیٹوں میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے اقلیتی برادری اپنے بنیادی اور آئینی حقوق سے بڑی حد تک محروم رہتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ بطور اقلیتی سیاستدان اور بطور پولیٹکس طالبعلم وہ ایک ایسے انتخابی نظام کے خواہاں ہیں جو اپنی لیڈر شپ کو براہ راست منتخب کرکے ایوان میں بھیج سکیں تاکہ ان کے مسائل بہتر طور پر حل ہوں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ اپنے دور حکومت میں انہوں نے اقلیتوں کے انتخابی نظام میں بہتری کے لئے صوبائی اسمبلی سے ایک قرارداد منظور کروائی تھی کہ اقلیتوں کو اپنے نمائندگان خود چننے کا حق دیا جائے، تاکہ ان کے مسائل اسمبلی کے فلور پر حل ہوں اور 1973 کے بعد سے اقلیتی نشستوں میں اضافہ نہ ہونے کو بھی اس قراداد کا حصہ بنایا گیا تھا جسے وفاق میں بھیجا گیا تھا۔
وہ اس حوالے سے مزید اقدامات کرنے کے خواہاں تھے مگر پانچ سال مدت پوری نہ کرنے کے سبب بہت ساری اصلاحات اور اقدامات ادھورے رہ گئے، جن میں سے ایک انتخابات اور ایوان میں مذہبی اقلیتوں کی نمائندگی بڑھانا تھا۔
روی کمار کے مطابق بطور اقلیتی سیاستدان اکثریتی سیاست دانوں کے ساتھ کام کرنا چیلینجنگ ہوتا ہے، کیوں کہ اپنے حلقوں کو لے کر ان کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں جس میں وہ انہیں قصور وار بھی نہیں سمجھتے، کیونکہ اقلیتوں کے مسائل پر کام کرنا ان کی ذمہ داری نہیں ہوتی۔
تاہم اس کا حل وہ ایسے دیکھتے ہیں کہ اقلیتی اراکین اسمبلی کے لئے ایک الگ ڈائریکٹوریٹ بنا دیا جائے تاکہ وہ اپنے مسائل پر ترجیحی بنیادوں پر کام کرنے کے اہل ہوسکیں۔ اسی طرح اسمبلی میں اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ ڈیبٹ ہونی چائیے کہ اقلیت کی نمائندگی کیسے بڑھائی جائے۔
وزیرزادہ کیلاش کمیونٹی سے تاریخ میں پہلی بار اسمبلی میں پہنچنے والے رکن اسمبلی رہے ہیں۔ روی کمار کی طرح وزیر زادہ بھی پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ایوان میں اترے اور اہم وزارتی امور پر کام کیا۔
وہ کہتے ہیں کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک کسی سیاسی جماعت نے کیلاش قبیلے کو یہ موقع نہیں دیا تھا کہ ان کے کسی فرد کو صوبائی یا قومی اسمبلی کی مخصوص نشست پر نامزد کیا جائے، لیکن پاکستان تحریک انصاف یہ روایت ڈال چکی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ’کیلاش قبیلے کو اکثر اوقات شیڈول کاسٹ میں شمار کیا جاتا ہے (شیڈول کاسٹ اور اقلیت میں فرق معاشرتی یا عدلی امور پر مبنی ہوتا ہے۔ شیڈول کاسٹ عوام میں مختلف طبقات کو مختلف حقوق کے لحاظ سے الگ کرتا ہے، جبکہ اقلیت عوام میں آبادی کے تناسب سے ہوتی ہے اور اس میں مختلف قومیتوں یا گروہوں کو شامل کیا جاتا ہے، یہ دونوں معاشرتی ترتیبات میں فرق پیدا کرتی ہیں مختصراً یہ کہ ذات پات کی بنیاد پر تقسیم کی گئی اقلیت جیسے کہ باگڑی، جوگی، شکاری کولہی ، دلت)۔
وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں کیلاش کے لوگوں کی بہبود کے لئے کام کیا اور چاہتے ہیں کہ دیگر اقلیتوں کی طرح کیلاش قبیلے کو بھی ایک الگ شناخت ملے۔
ان کی خواہش ہے کہ آنے والے انتخابات میں ان کے نمائندے بھی اسمبلی میں جاکر دیگر اقلیتوں کی طرح اپنے حقوق اور مسائل کےلیے آواز بلند کرسکیں۔
ان کا ماننا ہے کہ اقلیتوں کو جداگانہ انتخاب کا حق ان کے نمائندوں کے لئے ایوانوں میں بھی باعث عزت ہوگی، کیونکہ دوسری صورت میں وہ پارٹی کے رحم وکرم سے اسمبلی تک آتے ہیں، اس سلسلے میں وہ اپنے دور حکومت میں اپنی پارٹی کے چیئرمین کو بھی آمادہ کرنے کی کوشیش کر رہے تھے، لیکن دو تہائی نمائندگی نہ ملنے کے بعد ان کی حکومت چلے جانے سے آنے والے دنوں میں انہیں بہتری کی امید فی الحال دکھائی نہیں دے رہی۔
انہوں نے اس تشویش کا بھی اظہار کیا کہ اسمبلی میں ایسے اراکین موجود ہوتے ہیں جو سرے سے اقلیتوں کے جداگانہ انتخاب کے حق میں ہی نہیں ہی ۔
سکھ برادری سے ہی تعلق رکھنے والے سابق رکن خیبر پختونخوا صوبائی اسمبلی رنجیت سنگھ کے مطابق جہاں جہاں اقلیتوں کی تعداد بڑھ رہی ہے وہیں ان کی نمائندگی کو بھی بڑھانا چاہئے۔
ان کے مطابق جب وہ رکن اسمبلی تھے تو اس حوالے سے واضح کوششوں میں شامل رہے کہ اقلیتوں کے لئے صوبے میں مخصوص چار نشستیں اقلیتوں کے مسائل حل کرنے میں ناکافی ہیں، تاہم چونکہ اقلیتوں کی نشستوں میں اضافے کا فیصلہ وفاق سے ہی طے پاتا ہے تو وہ بس اپنی سی کوشش میں مصروف رہے۔
ان کا یہ بھی شکوہ ہے کہ اکثریتی اراکین اسمبلی یا منتخب نمائندوں کے مقابلے میں انہیں ایوان میں کوئی خاطر خواہ اہمیت نہیں دی جاتی، یہاں تک کہ انہیں مطلوبہ فنڈز سے بھی محروم رکھا جاتا ہے، نتیجتاً وہ اپنی کمیونٹی کو اس طرح سے ڈیلیور نہیں کرپاتے جو اکثریتی نمائندے کرسکتے ہیں۔
اقلیتوں کے مسائل اور حقوق پر لکھنے والے پشاور کے صحافی محمد فہیم کے مطابق خیبر پختونخوا اسمبلی میں فاٹا انضمام کے بعد ایک اقلیتی نشست تو بڑھا دی گئی ہے، لیکن یہ نشست بھی دیگر نشستوں کی طرح مخصوص ہی ہے۔ یعنی صوبائی اسمبلی کے تمام چاروں اقلیتی ممبران پارٹی کی مرہون منت نشست پر آئیں گے، ایسے میں اقلیتوں کو نمائندگی تو مل جائیگی لیکن مسائل کا حل ممکن نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کو اگر سیاسی اور قومی دھارے میں شامل کرنا ہے تو ان کیلئے انتخابات کا طریقہ کار اپنانا ہوگا، جداگانہ طرز انتخابات بھی اس کا مؤثر طریقہ ہوسکتا ہے یا پھر الیکشن ایکٹ میں لازمی قرار دیتے ہوئے خواتین کی طرح ہی اقلیتوں کو بھی پارٹی ٹکٹ جاری کرنے کا پابند بنایا جاسکتا ہے، کیونکہ مذہبی اقلیتیں پاکستان کے مختلف حصوں میں آباد ہیں، جہاں ان کی اکثریت ہے وہاں برابری کی سطح پر انہیں سیاسی نمائندگی بھی ملنی چاہیے۔
لہٰذا اقلیتی برادری کو ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کرنے کا جداگانہ حق دئیے جانے کے بعد ان کے لئے سیٹوں میں اضافے کی راہ بھی ہموار ہوگی۔