جموں و کشمیر پر قابض بھارتی انتظامیہ نے ہفتہ کو مبینہ طور پر فوجی کیمپ میں دوران حراست تین شہریوں کی ہلاکت کے بعد ہزیمت سے بچنے کیلئے مقتولین کے لواحقین کو معاوضہ اور نوکریاں دینے کا اعلان کیا ہے۔
مقتولین کے اہل خانہ اور مقبوضہ وادی کی سیاسی جماعتوں نے الزام لگایا کہ انہیں 48 آر آر رجمنٹ کے فوجی کیمپ کے اندر مارا گیا۔
مقبوضہ جموں و کشمیر انتظامیہ کے محکمہ اطلاعات اور تعلقات عامہ کی طرف سے ”ایکس“ پر جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ ’پونچھ ضلع کے بفلیاز علاقے میں تین شہریوں کی موت کی اطلاع ملی۔ میڈیکل کی قانونی کارروائی کی گئی اور اس معاملے میں متعلقہ اتھارٹی کی طرف سے قانونی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ حکومت نے ہر مرنے والوں کے لیے معاوضے کا اعلان کیا ہے۔ مزید یہ کہ حکومت نے ہر مرنے والے کے لواحقین کے لیے ہمدردانہ تقرریوں کا بھی اعلان کیا ہے‘۔
تینوں افراد کی لاشوں کو ہفتہ کی دوپہر جموں کے ڈویژنل کمشنر رمیش کمار جنگڈ، پونچھ کے ڈپٹی مجسٹریٹ چودھری محمد یاسین، سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) ونے کمار اور دیگر حکام کی موجودگی میں ان کے آبائی گاؤں ٹوپا پیر میں دفنایا گیا۔
مقتولین کی شناخت 44 سالہ محفوظ حسین ولد میر حسین، 22 سالہ شوکت علی ولد نذیر حسین اور 32 سالہ شبیر حسین ولد ولی محمد ساکن ٹوپہ پیر کے نام سے ہوئی ہے۔
ہفتہ کی صبح تقریباً 8 بجے تینوں افراد کی لاشیں فوجی کیمپ کے اندر ہی پوسٹ مارٹم کے بعد ان کے اہل خانہ کے حوالے کر دی گئیں۔
مقتولین میں سے ایک شوکت علی کے 45 سالہ چچا پنچ محمد صادق نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے غریب لوگ تھے اور ان کا جمعرات کے گھات لگا کر کیے گئے حملے یا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ فوج نے جمعہ کو صبح ساڑھے نو بجے گاؤں سے نو افراد کو اس وقت اٹھایا جب وہ اپنے گھروں میں صبح کی چائے پی رہے تھے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ حراست میں لیے گئے افراد کو پہلے مال پوسٹ پر لے جایا گیا جہاں ان پر تشدد کیا گیا اور پھر بفلیاز پوسٹ پر منتقل کر دیا گیا۔
محمد صادق نے کہا کہ ’اس کے بعد آج (ہفتہ) صبح 8 بجے لاشیں ہمارے حوالے کی گئیں۔ ہم آج ان کو دفنانے جا رہے ہیں لیکن ہم انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم فوج سے بھی کہتے ہیں کہ وہ ہمیں دہشت گردی کی کسی بھی سرگرمی میں ملوث ہونے کے ثبوت فراہم کرے‘۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ متوفی کے جسم پر زخموں کے نشانات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ان پر تیزاب اور مرچ پاؤڈر ڈالا گیا۔ انہیں پانی سے بھرے ٹینکوں میں بجلی کے جھٹکے دیے گئے۔ انہیں ہر تھرڈ ڈگری ٹارچر دیا گیا۔ میں نے تشدد کی دو ویڈیوز ڈپٹی مجسٹریٹ کے ساتھ شیئر کی ہیں‘۔
بھارتی فوج کے ایڈیشنل ڈائریکٹوریٹ جنرل آف پبلک انفارمیشن نے بعد میں ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا، ’پونچھ کے راجوڑی سیکٹر کے بافلیاز علاقے میں 21 تا 23دسمبر تک جاری رہنے والی دہشت گردی کے واقعے کے بعد علاقے میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے سرچ آپریشن جاری ہے۔ علاقے میں تین شہریوں کی ہلاکت کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ معاملہ زیر تفتیش ہے۔ ہندوستانی فوج تحقیقات کے انعقاد میں مکمل تعاون اور تعاون فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے‘۔
بھارتی خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، جموں و کشمیر میں کئی جماعتوں نے ہفتہ کو احتجاجی مظاہرے کیے اور تینوں شہریوں کی ہلاکت کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
پی ٹی آئی کے مطابق پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی نے ہفتہ کو سری نگر میں پارٹی ہیڈکوارٹر میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’پونچھ واقعہ کے بعد، ٹوپا پیر گاؤں سے پوچھ گچھ کے لیے فوج نے 15 لوگوں کو اٹھایا، جن میں سے تین کی لاشیں انکاؤنٹر کے مقام کے قریب سے ملی ہیں۔ بقیہ 12 افراد مختلف اسپتالوں میں داخل ہیں اور ان کی حالت نازک ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’میں نے ایک ویڈیو بھی دیکھی جس میں دکھایا گیا ہے کہ فوجی لوگوں کو مارتے ہوئے اور ان کے زخموں پر لال مرچ کا پاؤڈر چھڑکتے ہیں۔ یہ ایک دل دہلا دینے والی ویڈیو ہے، تاہم، میں اس کی صداقت کے بارے میں نہیں جانتی‘۔
انہوں نے لیفٹیننٹ گورنر (ایل جی) منوج سنہا سے مطالبہ کیا کہ وہ اس واقعے کی تحقیقات شروع کریں اور اہل خانہ کو معاوضہ فراہم کریں۔