پاکستان میں موسم سرما آچکا ہے، لیکن سیاسی سرگرمیوں نے ماحول کو گرمایا ہوا ہے۔ ملک میں انتخابی سرگرمیاں عروج پر ہیں اور بدلتے لمحات ایک نئی خبر دے رہے ہیں۔
جمعہ کا دن بھی اسی گرما گرمی میں گزرا، جب الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے اس کا مشہور انتخابی نشان ”بلّا“ چھین لیا۔
یہ نشان پی ٹی آئی کے بانی عمران خان سیاسی زندگی کے ساتھ ساتھ ان کی کرکٹ سے جڑی سابقہ زندگی کی علامت بھی تھا۔
پی ٹی آئی کے کچھ حامیوں الیکشن کمیشن کے اس اقدام کع ناانصافی قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی سیاسی جماعت نے اپنا انتخابی نشان کھویا ہے۔
لیکن کیا حقیقت میں ایسا ہی ہے؟ جی نہیں! پی ٹی آئی پہلی سیاسی جماعت نہیں ہے جس نے اپنا انتخابی نشان کھویا ہو۔
پاکستان کی انتخابی تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے انتخابی نشان ”تلوار“ کو سابق فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کے دور میں 1977 کے متنازعہ انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن کی فہرست سے نکال دیا گیا تھا۔
اس کے بعد ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو نے 1988 میں تیر کے نشان سے الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئیں۔1988 میں پیپلز پارٹی قومی اسمبلی کی 207 میں سے 94 نشستیں جیت کر سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔
اسی طرح اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ اسلامی جمہوری اتحاد (IJI)، جس میں بے نظیر کے اہم مخالف نواز شریف بھی تھے، صرف 43 فیصد ووٹرز ٹرن آؤٹ کے ساتھ 56 نشستوں حاصل کرکے دوسرے نمبر پر رہی۔
پیپلز پارٹی دوسری جماعتوں جیسا کہ الطاف حسین کی ایم کیو ایم کے ساتھ اتحاد کر کے حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے 1993 اور 2008 کے انتخابات بھی اسی تیر کے نشان سے جیتے تھے۔ 1993 میں پیپلز پارٹی نے 86 نشستیں حاصل کیں اور بے نظیر نے دوسری بار ملک کی وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔
2008 میں بے نظیر کے قتل کے بعد پارٹی نے اسی تیر سے الیکشن لڑتے ہوئے 125 نشستیں حاصل کیں اور ن لیگ کے ساتھ مخلوط حکومت بنائی اور یوسف رضا گیلانی وزیراعظم اور آصف زرداری صدر بنے۔
پیپلز پارٹی کے پاس اب تلوار اور تیر دونوں علامتیں موجود ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان میں دو پیپلز پارٹی رجسٹرڈ ہیں۔ ایک تلوار کے انتخابی نشان کے ساتھ اور دوسری تیر کے ساتھ۔
بلاول بھٹو زرداری کی قیادت والی پیپلز پارٹی کے پاس تلوار کا انتخابی نشان ہے جبکہ آصف زرداری کی قیادت والی پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے پاس تیر کا نشان ہے۔ انتخابات میں پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرین ہی حصہ لیتی ہے، صرف پیپلز پارٹی نہیں۔
ضیاءالحق نے اپنے دور حکومت میں انتخابی فہرست سے دو دیگر علامتوں ’ترازو اور ہل‘ کو بھی ہٹایا تھا۔
1970 کی دہائی میں“ہل“ پاکستان نیشنل الائنس (PNA) کی علامت تھا، جو کہ پی پی پی کے خلاف نو پارٹیوں کا اتحاد تھا۔
اس وقت ترازو جماعت اسلامی کا نشان تھا جسے واپس لے لیا گیا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ 2013 میں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے درمیان ترازو کے نشان پر لڑائی ہوئی تھی لیکن جماعت اسلامی کو ترازو مل گیا۔