سپریم کورٹ آف پاکستان نے سائفر کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق چیٸرمین عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت کا تحریری فیصلہ جاری کردیا، جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے 5 صفحات پر مشتمل علیحدہ نوٹ بھی لکھا، فیصلہ میں کہا گیا کہ ملزمان کی انتخابات کے دوران رہائی اصلی انتخابات کو یقینی بنائے گی۔
سائفر کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت سے متعلق کیس کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے 4 صفحات پر مشتمل ضمانت کا فیصلہ تحریر کیا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ خفیہ معلومات کو غلط انداز میں پھیلانے کی سزا دو سال ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی جن شقوں کا اطلاق سائفر کیس میں کیا گیا وہ قابل ضمانت ہیں۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ عمران خان نے دوسرے ملک کے فائدے کے لیے سائفر کو پبلک کیا ایسے کوئی شواہد نہیں ملے، فیصلے میں دی گئی آبزویشنز ٹرائل کو متاثر نہیں کریں گی، بانی پی ٹی آئی عمران خان ضمانت کا غلط استعمال کریں تو ٹرائل کورٹ اسے منسوخ کر سکتی ہے۔
عدالت نے تحریری فیصلے میں مزید کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 5(3) بی کے جرم کا ارتکاب ہونے کے شواہد نہیں، ملزمان کے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے جرم کے ارتکاب کے لیے مزید انکوائری کے حوالے مناسب شواہد ہیں، مزید تحقیقات کا فیصلہ ٹرائل کورٹ شواہد کا جائزہ لینے کے بعد ہی کر سکتی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی شق (3) 5 بی کے تحت سزا 14 سال ہے جو کہ ناقابل ضمانت ہے، دستیاب مواد سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بانی چیئرمین نے سائفر کسی غیر ملک طاقت کو فائدہ دینے کے لیے استعمال کیا، یقین کرنے کے لیے ایسی معقول وجہ نہیں ہے کہ بانی چیئرمین نے آفیشل سکریٹ ایکٹ کی شق پانچ کی ذیلی شق تین بی کے جرم کا ارتکاب کیا یا نہیں یہ بات حتمی طور پر ٹرائل کورٹ ہی طے کری گی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ہائیکورٹ کا عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو ضمانت نہ دینا دستیاب مواد کے خلاف ہے ہائیکورٹ نے ضمانت نہ دے کر حقائق کے برخلاف رائے دی۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے 5 صفحات پر مشتمل علیحدہ اضافی نوٹ بھی لکھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے اپنے اضافی نوٹ میں تحریر کیا کہ درخواست گزار معاشرے کے خلاف جرم میں ملوث نہیں، ملزمان کی گرفتاری کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا، پورا ٹرائل دستاویزی شواہد پر منحصر ہے، ملزمان کی انتخابات کے دوران رہائی اصلی انتخابات کو یقینی بنائیں گے، کیس میں ایسے حالات نہیں کہ ضمانت کو مسترد کیا جائے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عوام کی خواہش کا اظہار انتخابی عمل سے ہی ممکن ہے، عوام کا حق رائے دہی استعمال کرنا آئینی حق ہے جس کے لیے ہر سیاسی جماعت کے امیدوار کو بلا خوف و خطر یکساں مواقع ملنے چاہئیں، اصل انتخابات وہی ہوتے ہیں جس میں ووٹر آزادانہ حق رائے دہی استعمال کرسکے، سیاسی رائے کی بنیاد پر اصل انتخابات پر سمجھوتہ کرنے پر انتخابات کا درجہ گر جاتا ہے، ہر امیدوار اور سیاسی جماعت کا حق ہے کہ وہ بشمول پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اپنے شہریوں تک پہنچ سکے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے اضافی نوٹ میں مزید کہا کہ جب ہر سیاسی جماعت کو یکساں طور پر مواقع نہ ملیں تو یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، درخواست گزاران پر ایسے سنگین الزامات نہیں ہیں جس کے معاشرے کو خطرہ ہو، معاشرے کیلئے خطرے کا سبب بننے والے جرائم میں زیادتی، قتل عام اور بچوں کے ساتھ بد سلوکی شامل ہیں، حقیقی انتخابات کے لیے درخواست گزاران کو ضمانت ملنا ضروری ہے۔
سائفر کیس میں فرد جرم عائد ہوئی یا نہیں؟ پی ٹی آئی کے وکلا لاعلمنکلے
سائفر کیس: پراسیکیوٹر کو آئندہ سماعت پر عمومی یا خصوصی حکومتی حکمنامہ پیش کرنے کا حکم
واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے سائفر کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور وائس چیئرمین پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت منظور کی تھی۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 10، 10 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت منظور کی۔