Aaj Logo

اپ ڈیٹ 22 دسمبر 2023 03:02pm

عمران، قریشی کی ضمانت منظور، جرم ثابت نہیں ہوا سابق وزیراعظم معصوم ہیں، جسٹس اطہر من اللہ

سپریم کورٹ نے سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی 10،10لاکھ کے ضمانتی مچلکوں کےعوض ضمانت منظورکرلی، اور ریمارکس دیے کہ سابق وزیراعظم پر جرم ثابت نہیں ہوا وہ معصوم ہیں، ان کے باہر آنے سے کیا نقصان ہوگا۔

سپریم کورٹ میں سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی ،شاہ محمود کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی، قائمقام چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

عدالت نے دلائل سننے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود کی ضمانت منظور کرلی۔ عدالت نے دونوں ملزمان کی 10،10 لاکھ کے ضمانتی مچلکوں کےعوض ضمانت منظور کی۔

کیس کی سماعت کا مکمل احوال

سپریم کورٹ میں سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی ،شاہ محمود کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی، قائمقام چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے مؤقف پیش کیا کہ شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر نوٹس نہیں ہوا۔ جس پر قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ ابھی نوٹس کر دیتے ہیں آپ کو کیا جلدی ہے۔

عمران خان کے وکیل سلمان صفدر کے دلائل

بانی پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے مؤقف پیش کیا کہ ٹرائل کورٹ نے جلد بازی میں 13 گواہان کے بیانات ریکارڈ کر لئے ہیں۔ جس پر قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اسپیڈی ٹرائل ہر ملزم کا حق ہوتا ہے، آپ کیوں چاہتے ہیں ٹرائل جلدی مکمل نہ ہو۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ ان کیمرہ ٹرائل کے خلاف آج ہائیکورٹ میں بھی سماعت ہے۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ دوسری درخواست فرد جرم کے خلاف ہے۔ جس پر جسٹس طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ جو فرد جرم چیلنج کی تھی وہ ہائیکورٹ ختم کرچکی ہے، نئی فرد جرم پر پرانی کارروائی کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ ٹرائل اب بھی اسی چارج شیٹ پر ہو رہا ہے جو پہلے تھی۔

عدالت نے سائفر کیس میں فرد جرم عائد کرنے کے خلاف کیس کی سماعت ملتوی کردی اورشاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر ایف آئی اے کو نوٹس جاری کردیا۔ جب کہ دونوں ملزمان کی درخواست ضمانت پر سماعت جاری رہی۔

وکیل سلمان صفدر نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ سائفرکیس میں وزارت داخلہ کے سیکرٹری شکایت کنندہ ہیں، لاہور ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں طلبی پر7 ماہ حکم امتناع دے رکھا ہے۔ سات ماہ تک ایف آئی اے نے خاموشی اختیار کی، اور توشہ خانہ میں ضمانت ہوتے ہی گرفتار کر لیا، سابق چیئرمین پی ٹی آئی کواسلام آباد میں گرفتارکرنے کی 40 مرتبہ کوشش کی گئی، ایف آئی اے کے مطابق تحقیقات کے بعد مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ اعظم خان پر میٹنگ منٹس توڑ مروڑ کر تحریر کرنے کا الزام ہے، ایف آئی اے کےمطابق تحقیقات کے بعد مقدمہ درج کیا گیا ہے، تعین کے باوجود نہ اعظم کو نہ اسدعمر کو گرفتارکیا گیا، اور اعظم خان ملزم کے بجائے سائفر کیس کے مقدمے کےاندراج کے اگلے دن گواہ بن گئے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ ایف آئی اے کو کیسےمعلوم ہوا کہ بنی گالا میں میٹنگ ہوئی تھی۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ یہ ایف آئی اے ہی بتا سکتا ہے، اب تک پراسیکیوشن نے ذرائع نہیں بتائے، سائفر وزارت خارجہ سے آیا، پراسیکیوشن کے مطابق سیکیورٹی سسٹم رسک پر ڈالا گیا، وزارت خارجہ نے سائفر سے متعلق کوئی شکایت نہیں کی۔

سلمان صفدر نے الزام عائد کیا کہ سابق وزیراعظم کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، راناثنااللہ نے بطور وزیر داخلہ ایف آئی اے کو تحقیقات کرنے کا کہا۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ کیس کو قانونی تک رکھیں سیاسی طرف نہ لے کر جائیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ سائفر کوڈز کی صورت میں آتا ہے، وزارت خارجہ کبھی بھی کوڈزپرمبنی سائفروزیراعظم کونہیں دیتا، وزارت خارجہ وزیراعظم کو سائفر کا ترجمہ یا بریفنگ دیتی ہے۔

وکیل سلمان صفدر نے مؤقف اختیار کیا کہ سائفر کوڈز ہر ماہ تبدیل ہوتے ہیں، سائفر کا انگریزی ترجمہ متعلقہ لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ پراسیکویشن کاکیا کہنا ہےسائفرکس کیساتھ شیئر کیا گیا۔ وکیل سلمان صفدر نے جواب دیا کہ سائفر کسی کے ساتھ کبھی شیئر نہیں کیا گیا، جلسے میں کہیں نہیں کہا کہ سائفر میں کیا ہے اور کہاں سے آیا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ سابق وزیراعظم کو جیل میں رکھنے سے معاشرے کو کیا خطرہ ہوگا۔ جس پر وکیل سلمان صفدر نے جواب دیا کہ دفعہ 164 کا بیان ملزم کا اعترافی بیان ہوتا ہے، اعظم خان کے اہلخانہ نے انکی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا، اعظم خان دوماہ لاپتہ رہے، یہ اغواء برائے بیان کا واقعہ ہے۔

قائمقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اغواء برائے تاوان تو سنا تھا اغواء برائے بیان کیا ہوتا ہے۔ جس پر وکیل سلمان صفدر نے جواب دیا کہ میرے لئے سب سے آسان الفاظ اغواء برائے بیان کے ہی تھے۔

قائمقام چیف جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ اغواء برائے بیان ابھی اصطلاح ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا تفتیشی افسر نے اعظم خان کی گمشدگی پرتحقیقات کیں۔ جس پر وکیل سلمان صفدر نے جواب دیا کہ اعظم خان کا بیان دباؤ کا نتیجہ ہے تفتیشی افسر نے کوئی تحقیقات نہیں کیں، اعظم خان نے واپس آتے ہی سابق وزیراعظم کے خلاف بیان دے دیا۔

وکیل سلمان صفدر پریڈ گراونڈ میں 27 مارچ 2022 کے جلسے میں شاہ محمود قریشی کی تقریر پڑھ کر دی اور کہا کہ شاہ محمود قریشی نے تقریر میں کہا کہ بہت سے راز ہیں لیکن حلف کی وجہ سے پابند ہوں سامنے نہیں رکھ سکتا۔

قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ وزیرخارجہ خود سمجھدار تھا سمجھتا تھا کہ کیا بولنا ہے کیا نہیں، وزیر خارجہ نے سائفر کا کہا کہ بتا نہیں سکتا اور سابق چیٸرمین کو پھنسا دیا کہ آپ جانیں اور عمران جانے، شاہ محمود خود بچ گئے اور سابق چیٸرمین پی ٹی آٸی کو کہا کہ سائفرپڑھ دو۔

وکیل سلمان صدر نے کہا کہ چیٸرمین پی ٹی آٸی نے بھی پبلک سے کچھ شئیرنہیں کیا تھا، اگر سائفر پبلک ہو ہی چکا ہے تو پراسیکیوشن کو سائفر ٹرائل ان کیمرہ کیوں چاہیے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ کس بنیاد پرپراسیکیوشن سمجھتی ہے کہ ملزمان کوزیرحراست رکھنا ضروری ہے۔ جس پر وکیل سلمان صفدر نے جواب دیا کہ اعظم خان نے بیان دیا کہ سابق وزیراعظم سے سائفر مانگا تو انہوں نے کہا گم گیا ہے، سابق وزیراعظم نے ملٹری سیکرٹری کو بھی سائفر تلاش کرنے کا کہا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اعظم خان کے بیان میں واضح ہے کہ وزیراعظم کے پاس موجود دستاویز سائفر نہیں تھی۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ اعظم خان نے کہا ان کی موجودگی میں ہی بنی گالہ میں وزارت خارجہ نےبریفننگ دی۔

قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق نے استفسار کیا کہ سیکرٹری خارجہ ملزم ہیں یا گواہ؟۔ جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس وقت کے سیکرٹری خارجہ گواہ ہیں۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ وزارت خارجہ نے 17 ماہ تک سائفرکی کاپی وزیراعظم سے نہیں مانگی، اعظم خان کے مطابق سابق وزیراعظم عسکری قیادت پر دباؤ ڈالنا چاہتے تھے، اعظم خان نے کہا بنی گالہ میٹنگ کے بعد سائفر کو پبلک میں لہرانے کا فیصلہ ہوا، جس جلسے میں کاغذ لہرایا گیا وہ میٹنگ سے ایک دن پہلے ہوچکا تھا۔

وکیل سلمان صفدر نے سابق سفیر اسد مجید کا بیان بھی پڑھ کر سنا دیا، اور سوال اٹھایا کہ اگر کچھ غلط نہیں ہوا تھا تو امریکی سفیر کو بلا کر احتجاج کیوں کیا گیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ کس بنیاد پر پراسیکیوشن سمجھتی ہے کہ ملزمان کو زیرحراست رکھنا ضروری ہے۔

عدالت نے سماعت میں وقفہ کردیا۔ وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو وکیل سلمان صفدر نے مؤقف پیش کیا کہ سابق وزیراعظم کوسیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، چالیس مقدمات میں ضمانت قبل ازگرفتاری منظور ہوچکی ہے، کسی بھی سیاسی لیڈرکیخلاف ایک شہرمیں چالیس مقدمات درج نہیں ہوئے۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سابق وزیراعظم ریاستی دشمن نہیں بلکہ سیاسی دشمن ہیں، سابق وزیراعظم نے خط کے مندرجات کسی سے شیئر نہیں کیے، امریکی سفیر کو بلا کر کہا گیا احتجاج غلط ہے یا پھر سائفرکا مقدمہ، شہباز شریف نے بھی قومی سلامتی کونسل کے نکات کی توثیق کی تھی۔

شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری کے دلائل

سابق چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل مکمل کر لئے تو شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری نے دلائل کا آغاز کردیا۔

وکیل علی بخاری نے مؤقف پیش کیا کہ شاہ محمود قریشی پر سائفر رکھنے کا الزام ہے نہ شیئر کرنے کا، ان پر واحد الزام تقریر کا ہے، اور الزام کا جائزہ عدالت پہلے ہی لے چکی ہے، شاہ محمود قریشی 10دن ریمانڈ پر رہے، کوئی برآمدگی نہیں ہوئی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا شاہ محمود قریشی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ جس پر وکیل علی بخاری نے کہا کہ وہ آج کاغذات جمع کرائیں گے۔ جس پر جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ انتخابات میں حصہ لینا ہی ضمانت کیلئے اچھی بنیاد ہے۔

پراسیکویٹر رضوان عباسی کے دلائل

پراسیکویٹر رضوان عباسی نے دلائل کا آغاز کیا تو جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ سائفر کی ایک ہی اصل کاپی تھی جو دفترخارجہ میں تھی، سائفر دفتر خارجہ کے پاس ہے تو باہر کیسے نکلا ہے۔

پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ حساس دستاویزات کو ہینڈل کرنے کیلئے رولز موجود ہیں۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ رولزکی کتاب کہاں ہیں۔ پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ رولز خفیہ ہیں اس لئے عدالت کی لائبریری میں نہیں ہوں گے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ رولز کیسے خفیہ ہوسکتے ہیں۔ جس پر پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ یہ ہدایت نامہ ہے جو صرف سرکارکے پاس ہوتا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ڈی کوڈ ہونے کے بعد بننے والا پیغام سائفر نہیں ہوسکتا۔ جس پر قائمقام چیف جسٹس نے سوال کیا کہ سائفر کا مطلب کیا ہے۔ جسٹس سردار طارق کے سوال پر جواب دیتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ سائفر کا مطلب ہی کوڈڈ دستاویز ہے، ڈی کوڈ ہونے کے بعد وہ سائفر نہیں رہتا۔

قائمقام چیف جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ سائفر جب ڈی کوڈ ہوگیا تو سائفر نہیں رہا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سائفرکے حوالے سے قانون دکھائیں۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ کیا سیکرٹری خارجہ نے وزیراعظم کو بتایا تھا کہ یہ دستاویز پبلک نہیں کرنی، تفتیشی افسر کو سیکرٹری خارجہ کے بیان میں کیا لکھا ہے۔

پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ سیکرٹری خارجہ نے میٹنگ میں یہ بات کہی تھی۔ جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ سیکرٹری خارجہ نے تحریری طورپرکیوں نہیں آگاہ کیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا تفتیشی افسر نے حساس دستاویزات پر مبنی ہدایت نامہ پڑھا ہے، تفتیشی رپورٹ میں کیا لکھا ہے کہ سائفرکب تک واپس کرنا لازمی ہے، نہ پراسیکیوٹر کو سمجھ آرہی ہے نہ تفتیشی افسر کو۔

قائمقام چیف جسٹس سردار طارق نے استفسار کیا کہ کیا گواہان کے بیانات حلف پرہیں۔ جس پر تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ گواہی حلف پر ہوتی ہے۔

جسٹس سردارطارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ ریکارڈ کے مطابق گواہ کا بیان حلف پر نہیں ہے، کیا اعظم خان کی گمشدگی کی تحقیقات کی ہیں۔ جس پر تفتیشی افسر نے بتایا کہ اعظم خان نے واپس آنے کے ایک ماہ بعد بیان دیا۔

قائمقام چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ ایک ماہ اعظم خان خاموش کیوں رہا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیا اعظم خان شمالی علاقہ جات گئے تھے۔ جس پر پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے جواب دیا کہ اعظم خان کے مطابق ان پر پی ٹی آئی کا دباؤ تھا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عباسی صاحب ایسی بات نہ کریں جو ریکارڈ پر نہ ہو۔

قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق نے سوال کیا کہ شہباز شریف نے کیوں نہیں کہا کہ سائفرگم گیا ہے، انہوں نے کس دستاویز پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس کیا تھا۔

رضوان عباسی نے بتایا کہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں سائفر پیش ہوا تھا۔ جس پر قائمقام چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا اصل سائفر پیش ہوا تھا؟ یہ کیسے ممکن ہے۔

پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ڈی کوڈ کرنے کے بعد والی کاپی سلامتی کمیٹی میں پیش ہوئی تھی۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سائفر کیس میں سزائے موت کی دفعات بظاہر مفروضے پر ہیں، سائفر معاملے پرغیر ملکی قوت کو کیسے فائدہ پہنچا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیا حکومت 1970 اور 1977 والے حالات چاہتی ہے، نگران حکومت نے آپ کو ضمانت کی مخالفت کرنے کی ہدایت کی ہے، ہر دور میں سیاسی رہنمائوں کیساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے، سابق وزیراعظم کے جیل سے باہر آنے سے کیا نقصان ہوگا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اس وقت سوال عام انتخابات کا ہے، اس وقت سابق چیٸرمین پی ٹی آٸی نہیں عوام کے حقوق کا معاملہ ہے، اور عدالت بنیادی حقوق کی محافظ ہے، سابق وزیراعظم پرجرم ثابت نہیں ہوا وہ معصوم ہیں۔

جسٹس سردارطارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے توفیصلہ ہی کردیا ہے ماشااللہ، اب خالی رسی ہی رہ گئی ہے، یہ بتائیں کہ سائفر دستیاب نہیں تھا تو سلامتی کمیٹی کے دو اجلاس کیسے ہوئے۔ جس پر پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے جواب دیا کہ سیکرٹری خارجہ کا بیان ہے انہوں نے اجلاس میں ماسٹر کاپی پیش کی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اسد مجید کے بیان میں کہیں نہیں لکھا کسی دوسرے ملک کوفائدہ پہنچا ہے، عدالت سائفر پبلک کرنے کو درست قرار نہیں دے رہی لیکن بات قانون کی ہے، سزائے موت کی دفعات عائد کرنے کی بنیاد کیا ہے وہ واضح کریں، کسی گواہ کے بیان سےثابت نہیں ہو رہا کہ کسی غیر ملکی طاقت کو فائدہ ہوا ہے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ ایک طرف آپ کہتے ہیں مقدمہ ان کیمرا چلے گا لیکن گواہان کے بیان پڑھنا شروع ہو گئے ہیں۔

پراسیکیوٹررضوان عباسی نے مؤقف پیش کیا کہ بھارت میں سائفر لہرانے پر بہت واویلا ہوا۔ جس پر اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کل بلوچ فیملیز کیساتھ جو ہوا اس پر کیا کچھ واویلا نہیں ہوا ہوگا۔

پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ دوطرفہ تعلقات متاثر ہونے سے دشمن کو فائدہ ہوگا۔

عدالت نے دلائل سننے کے بعد سائفرکیس میں سابق چیئرمین پی ٹی آئی اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی ضمانت منظورکرلی۔ عدالت نے دونوں ملزمان کی 10،10لاکھ کے ضمانتی مچلکوں کےعوض ضمانت منظور کی۔

Read Comments