افغانستان کی حکومت ایک جانب پاکستان سے مہاجرین کی وطن واپسی کی اعلانیہ مخالفت کرتی ہے تاہم اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ افعان تاجروں کو پاکستان سے اپنے اثاثے افغانستان منتقل کرنے میں معاونت فراہم کر رہی ہے۔
امارت اسلامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے افغان نیوز کو بتایا کہ تاجروں کے سرمائے کی منتقلی بشمول زمین کی تقسیم، اجازت نامے کے حصول اور جائیداد کی منتقلی کے تمام پہلوؤں کو ملک میں فراہم کیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ امارت اسلامیہ افغانستان اس بات کو اپنی ذمہ داریوں میں سے ایک سمجھتی ہے کہ افغانستان میں سرمایہ کاری کرنے اور آنے والے تارکین وطن کو ان کی تفصیلات کے مطابق زمین دی جائے۔ اس کے علاوہ جائیداد اور رقم کی منتقلی میں سہولیات پیدا کی جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک کے وزیر تجارت کی قیادت میں قائم کمیٹی وہاں (پاکستان) سے آنے والے تارکین وطن کو سرمایہ کاری کی سہولیات فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے۔
دوسری طرف افغانستان چیمبر آف کامرس اینڈ انویسٹمنٹ (اے سی سی آئی) نے کہا ہے کہ امارت اسلامیہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ پاکستان کی عبوری حکومت کے ساتھ ایک معاہدے پر پہنچے تاکہ افغان سرمایہ کاروں کے تمام اثاثے پاکستان سے ملک منتقل کیے جاسکیں۔
افغان میڈیا کے مطابق اے سی سی آئی کے ایک رکن خانجان الکوزی نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کی معیشت میں 35 فیصد سے زائد حصہ افغانوں کا ہے۔ ہمارے پاس سیکڑوں قالین فیکٹریوں کے ساتھ ہوٹل ، عمارتیں اور نقل و حمل بھی تھی۔
کچھ افغان ماہرین اقتصادیات ملک میں تاجروں کے سرمائے کی منتقلی کو کام کے مواقع فراہم کرنے اور معاشی چیلنجوں کو کم کرنے میں فائدہ مند سمجھتے ہیں۔
ماہر معاشیات ظہور مدبر کا کہنا ہے کہ ملک میں جتنی زیادہ سرمایہ کاری ہوگی، روزگار کی شرح اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ یہ مارکیٹ میں ایک مؤثر طلب پیدا کر سکتا ہے، اس لیے کچھ کمپنیوں کی بیرونی ممالک سے ملک میں منتقلی ایک انتہائی قابل قدر قدم سمجھا جا سکتا ہے۔
قبل ازیں قائم مقام وزیر صنعت و تجارت نورالدین عزیزی نے کہا تھا کہ ملک واپس آنے والے تاجروں کو پانچ سال کے ٹیکس سے استثنیٰ دیا جائے گا۔