کیا مسلم لیگ (ن) کے رہنما نواز شریف الیکشن میں حصہ لے پائیں گے۔ یہ سوال اس وقت پاکستانی سیاست کے اہم ترین سوالات میں سے ایک ہے۔
کئی مقدمات میں بری ہونے کے باوجود میاں نواز شریف کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کا سامنا ہے۔
ایسے میں سپریم کورٹ نے ارکان پارلیمنٹ کی آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کے معاملے پر 7 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا ہے جو چیف جسٹس کی سربراہی دو جنوری 2024 سے تاحیات نااہلی کیس کی سماعت کرے گا۔
لیکن اس بینچ کا فیصلہ کب تک آئے گا؟ اور کب تک آنا ضروری ہے؟
سابق وزیراعظم نوازشریف کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت پاناما کیس میں 28 جولائی 2017 کو نااہل قراردیا گیا تھا۔
نوازشریف کو بیٹے کی فرم سے لی جانے والی ممکنہ تنخواہ ظاہر کرنے میں ناکامی پرکوئی بھی عوامی عہدہ سنبھالنے کیلئے تاحیات نااہل قرار دیا گیا تھا اور یہ نااہلی اب تک برقرار ہے۔
سیاستدانوں کی نااہلی کے معاملے پر سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کی تشکیل اس سوال کو جنم دے رہی ہے کہ کیا اس سے وطن واپسی کے بعد دو ایون فیلڈ اور العزیزیہ جیسے 2 اہم مقدمات میں بریت پانے والے سابق وزیراعظم نواز شریف کیلئے الیکشن میں حصہ لینے کی راہ ہموار ہوجائے گی؟۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کیلئے امیدواروں کی حتمی فہرست 11 جنوری 2024 کو جاری کی جائے گی۔ کاغذات نامزدگی واپس لینے کی آخری 12 جنوری ہوگی جبکہ 13 جنوری 2024 کو انتخابی نشان الاٹ کیے جائیں گے۔
ملک میں عام انتخابات کی تاریخ 8 فروری 2024 بروز جمعرات مقرر کی گئی ہے ۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ان تاریخوں سے قبل اس کیس کا فیصلہ آگیا تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ نواز شریف عام انتخابات میں حصہ لے پائیں گے یا نہیں اور اگر فیصلہ نہیں آتا تو لیگی رہنما الیکشن کی دوڑ سے باہر ہو جائیں گے۔
اس کے اثرات مسلم لیگ(ن) کے مجموعی انتخابی نتائج پر بھی آئیں گے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ سپریم کورٹ نے نااہلی کیس کی گزشتہ سماعت کے تحریری حکمنامے میں کہا تھا کہ نااہلی کی مدت کے سوال والے کیسز جنوری کے آغاز پر مقرر کئے جائیں اور کیس کے زیرِ التوا ہونے کو الیکشن میں تاخیر کیلئے استعمال نہیں کیا جائے گا۔
تاہم فریقین کے وکلاء کا کہنا تھا کہ نااہلی کی مدت کے تعین کے حوالے سے عام انتخابات سے سپریم کورٹ کا فیصلہ ضروری ہے۔
آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 62 اہلیت اور آرٹیکل 63 کسی شخص کو پارلیمنٹ کا رکن بننے کے لیے نااہل قرار دیتا ہے۔
آرٹیکل 62 کی ایک ذیلی شق 62 ون ایف کہتی ہے کہ کوئی شخص رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے کا اہل نہیں ہو گا جب تک کہ وہ غیر منافع بخش، ایماندار، امین، عقلمند اورصالح نہ ہو۔ اور اس کے خلاف عدالت کی طرف سے کوئی اعلان نہ کیا گیا ہو۔
ویسے تو کسی رکن پارلیمنٹ کو ملک کے دیگر قوانین کے تحت سنگین جرائم کا مرتکب پائے جانے پر عوامی عہدہ رکھنے کیلئے نااہل قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن 62 ون ایف کے تحت نااہلی زیادہ سخت ہے۔
دوسرے قوانین کے تحت نااہل شخص سزا کی تاریخ سے پانچ سال بعد پارلیمنٹ میں واپس آ سکتا ہے، لیکن 62 ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات ہے۔