طالبان حکومت کی تاریخ سازدوحہ معاہدے کی خلاف ورزیاں جاری ہیں، افغانستان کی عبوری حکومت دوحہ معاہدے پر عملدرآمد میں ناکام ہوگئی ہے۔
امریکا اور طالبان نے باہمی رضامندی سے دوحہ معاہدے پر دستخط کئے تھے، دونوں ممالک نے امریکی فوجیوں کے انخلاء کی ٹائم لائن طے کی تھی، طالبان نے معاہدے میں دہشتگردی کی روک تھام کی یقین دہانی کرائی تھی۔
تاہم، طالبان حکومت نے کئے گئے ایک بھی وعدے کا پاس نہ رکھا۔
فغانستان میں دہشتگردوں کی پناہ گاہوں کی موجودگی عالمی امن کے لئے سنگین خطرہ قرار دی گئی ہے، افغان حکومت نے معاہدے کے مطابق القاعدہ اور دیگر دہشتگرد تنظیموں کے ساتھ تعلقات منقطع نہیں کیے۔
دہشتگرد تنظیم القاعدہ افغان طالبان حکومت کے ساتھ ”قریبی اورعلامتی“ تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہے۔
پاکستانی طالبان (ٹی ٹی پی) کے رہنما طالبان حکومت کی سر پرستی میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ ٹی ٹی پی کو ماہانہ فلاحی ادائیگیاں کی جا رہی ہیں اور اس کے کچھ حصے جنگجوؤں کو بھی فراہم کئے گئے۔
دہشتگردوں کے ہاتھ میں اسلحہ و گولہ بارود آنے کے خدشات اب عملی شکل اختیار کر رہے ہیں۔
سابق کمانڈر امریکی سنٹرل کمانڈ کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کو تاریخی غلطی کے طور پر دیکھا جائیگا۔
تاشقند کانفرنس کے شرکاء کا کہنا ہے کہ افغانستان میں موجود دہشتگرد عالمی امن کیلئے بدستور سنگین خطرہ ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے ”واشنگٹن پوسٹ“ کا کہنا ہے کہ افغانستان ایک بار پھر دہشتگردی کی آماجگاہ بن چکا ہے۔
جبکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا دعویٰ ہے کہ افغانستان حکومت القاعدہ اور ٹی ٹی پی کو رہنمائی فراہم کر رہی ہے۔
پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں افغان شہریوں کا ملوث ہونا دوحہ امن معاہدے سے انحراف ہے۔