پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین ہارون رشید اور صدر حسن رضا پاشا نے آج نیوز کے 2 الگ الگ پروگرامز میں گفتگو کے دوران پاکستان بار کونسل کی پریس ریلیز کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بار کونسل نے چیف الیکشن کمشنر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ نہیں کیا اور نہ ہی دوبارہ حلقہ بندیوں کو مطالبہ کیا ہے۔
آج نیوز کے پروگرام ”اسپاٹ لائٹ“ میں گفتگو کرتے ہوئے وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل ہارون رشید نے پاکستان بارکونسل کی پریس ریلیز پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے چیف الیکشن کمشنر کے استعفے کا مطالبہ نہیں کیا۔
ہارون رشید کا کہنا تھا کہ دوبارہ حلقہ بندیاں کرنا نہیں چاہتے، پاکستان بارکونسل نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے، جہلم اور حافظ آباد کی آبادی برابر ہے، جہلم میں 2 اور حافظ آباد میں ایک نشست ہے، ہری پور کی 14 لاکھ کی آبادی میں ایک نشست ہے، پہلے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں، الیکشن کے بعد بھی اپنے تحفظات پیش کریں گے۔
وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل نے مزید کہا کہ حلقہ بندیوں میں ہماری ذاتی دلچسپی نہیں، ہمارا کوئی ممبرالیکشن میں حصہ نہیں لے رہا، ہم انتخابات میں تاخیر نہیں چاہتے، سپریم کورٹ کی دی تاریخ پر الیکشن ہونا چاہیئے، ہم نے چیف الیکشن کمشنر سے استعفے کا مطالبہ نہیں کیا، الیکشن کے بعد بھی معاملات کو دیکھا جاسکتا ہے۔
چیف الیکشن کمشنر پر تحفظات ہیں استعفے کا مطالبہ نہیں کیا، صدر پاکستان بار کونسل
اس سے قبل آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں بات کرتے ہوئے چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی پاکستان بار کونسل حسن رضا پاشا کا کہنا تھا کہ ہم 8 فروری کو ہی عام انتخابات چاہتے ہیں، اور اس حوالے سے سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ اگر سپریم کورٹ اس کیس میں شامل نہ ہوتی تو الیکشن کمیشن 54 دن قبل الیکشن شیڈول والا وقت گزار چکی ہوتی
حسن رضا پاشا کا کہنا تھا کہ ہم نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ انتخابات میں شفافیت ہونی چاہئے، اس کی وجہ ہے کہ گزشتہ کچھ الیکشن پر انگلیاں اور آوازیں اٹھی ہیں، اور جو حکومت بھی بنی اس کے آخری دن تک یہی کہا جاتا رہا ہے کہ الیکشن متنازعہ تھے، سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کو ایسی ہدایات جاری کرے کہ آنے والے الیکشن پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔
حسن رضا پاشا نے کہا کہ حلفاً کہتا ہوں کہ کسی سیاسی شخصیت نے بار کونسل سے رابطہ نہیں کیا، بلکہ پاکستان بار کونسل اپنے طور پر انتخابات میں شفافیت چاہتی ہے، سب پر لازم ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کو مانے، پاکستان بار کونسل نے چیف الیکشن کمشنر پر تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ ان کی موجودگی میں فری اینڈ فیئر الیکشن نہیں ہوسکتے تاہم چیف الیکشن کمشنر سے استعفے کا مطالبہ نہیں کیا، ہم نے کون سی بات حقائق سے ہٹ کر کی ہے، آرٹیکل 217 کے مطابق اگر چیف الیکشن کمشنر نہ رہے یا مستعفی ہوگئے تو کوئی سینئر بندہ چارج لے سکتا ہے، اور اس کے پاس بھی وہی تمام اختیارات ہوں گے جو چیف الیکشن کمشنر کے پاس ہوتے ہیں۔
پاکستان بار کونسل کے صدر نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر سے ہماری کوئی ضد نہیں، بعض مواقع پر ہم ان کی حمایت بھی کرتے رہے ہیں، اور جب صدر مملکت نے انہیں ملاقات کا کہا اور انہوں نے منع کیا تو اس وقت بھی ہم نے کہا تھا کہ آپ عارف علوی کو نہیں بلکہ ان کے منصب پر غور کریں لیکن انہوں نے ہماری نہیں مانی، اور پھر سپریم کورٹ نے ان سے کہا کہ آپ صدر کے پاس جائیں اور مشاورت کریں۔
حسن رضا پاشا کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سب کو لیول پلیئنگ فیلڈ ملے، اور انتخابات میں چیف الیکشن کمشنر کی موجودگی نہ ہو، ہم الیکشن کے التواء کی طرف نہیں جائیں گے، ہم 8 فروری کو ہی شفاف انتخابات چاہتے ہیں۔ پاکستان بھر کے وکلا الیکشن کمیشن کے فیصلوں اور اقدامات پر نظر رکھے ہوئے ہیں، صدر سپریم کورٹ بار عمرے پر گئے ہوئے ہیں، وہ دو چار روز تک واپس آئیں گے تو ان سے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف وکلا تحریک حوالے سے مشاورت کی جائے گی۔
سابق پی ٹی آئی رہنما عثمان ڈار کے خواجہ آصف سے متعلق الزامات کے حوالے سے صدر پاکستان بار کونسل کا کہنا تھا کہ اگر کوئی غیر آئینی یا غیر قانونی اقدام سامنے آیا تو ہم اس پر آواز اٹھائیں گے، لیکن کوئی چیز واضح تو ہو، عثمان ڈار تو سیدھا خواجہ آصف پر الزام لگارہے ہیں، جب کہ میری ذاتی رائے کہ خواجہ آصف ایک سینئر سیاستدان ہیں، مجھے ہیں لگتا کہ وہ اس طرح اس لیول پر آسکتے ہیں، وہ متعدد بار الیکشن میں حصہ لے چکے ہیں، لیکن پہلے تو ان پر مخالفین کی جانب سے اس طرح کے الزامات نہیں لگائے گئے۔