پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات میں الیکشن کمیشن کی جانب سے بھیجے گئے 40 سوالات بارے کیس کی سماعت میں دلائل مکمل ہونے پر الیکشن کمیشن نے فیصلہ محفوظ کرلیا، چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان اور بیرسٹر علی ظفر کا کہنا ہے کہ انتخابی نشان ہمارا حق ہے امید ہے الیکشن کمیشن مایوس نہیں کرے گا۔
پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات پر الیکشن کمیشن کے 40 سوالات سے متعلق چیف الیکشن کمیشنر سکندر سلطان راجہ کی زیر صدارت 5 رکنی کمیشن نے سماعت کی، چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہرعلی خان کمیشن میں پیش ہوئے۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے دلائل میں مؤقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن کے 40 سوالات سے بہت مایوسی ہوئی ہے، الیکشن کمیشن کو باریکیوں میں جانے کی بجائے یہ دیکھنا چاہیے کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے ہیں یا نہیں۔
چیف الیکشن کمشنر نے ریمارکس دیے کہ کمیشن نے مناسب سمجھا کہ آپ کو سنا جائے آپ کے فائدے اور وقت بچانے کے لیے آپ کو بلایا گیا ہے آپ تسلی رکھیں۔
جس پر پی ٹی آئی وکیل نے گلہ کیا کہ ہمارے علاؤہ کسی اور سیاسی جماعت کو اس کے سوالنامے نہیں بھیجے گئے۔
وکیل پی ٹی آئی علی ظفر اور چیئرمین پی ٹی آئی گوہر علی خان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کے چالیس سوالات کا جواب دے دیا ہے، ان سوالات کا تعلق پی ٹی آئی انٹرا پارٹی کے الیکشن سےنہیں تھا، سارے غیر متعلقہ سوالات تھے۔
پی ٹی آئی وکیل شعیب شاہین نے کمیشن کے سامنے پیش ہوئے اور استدعا کی میں ایک درخواست دے رہا ہوں، ہمارے بانی چئیرمین جیل میں ہیں، ہم ان کے ساتھ پارٹی ٹکٹس کے لیے مشاورت کرنا چاہتے ہیں۔
ممبر کمیشن نے استفسار کیا یہ درخواست ہم سے کیسے متعلقہ ہے؟ جس پر شعیب شاہین نے کہا کہ فئیر اینڈ فری الیکشن کرانا اپ کی ذمہ داری ہے۔
چیف الیکشن کمشنر نے ریمارکس دیے کہ ہمیں ایک دن دیں ہم مناسب فیصلہ کرتے ہیں
اس سے قبل دوران سماعت وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے دیگر سیاسی جماعتوں کے انٹرا پارٹی انتخابات دیکھے ہیں، ہمیں کہا جاتا ہے پارٹی کے مجاز سے دستخط کروائیں، پہلے ہم نے کروائے تو کہا گیا ہیڈ سے کروائیں، اب مجاز سے کرائیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اس بنیاد پر انتخابات ختم نہیں کیے جاسکتے، ہم سے پوچھا گیا چیئرمین نے کیوں دستخط کیا؟ رول کہتا ہے کہ پارٹی ہیڈ کو دستخط کرنا ہوں گے، شہباز شریف اور اسفندیار ولی خان نے بھی دستخط کیے ہیں۔ پھر ہمارے ساتھ ہمارے ساتھ امتیازی سلوک کیوں ہورہا ہے؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہمیں بتایا جائے دستخط مجاز شخص نے کرنے ہیں یا پارٹی ہیڈ نے، یہ ایسا معاملہ نہیں کہ آپ انتخابی نشان روک دیں گے، الیکشن کمیشن نے ہمیں دوبارہ الیکشن کرانے کا حکم دیا، وہ ہم کرا چکے ہیں۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ سوال نامے میں سوال نمبر ایک کی کوٸی مطابقت نہیں۔ دوسرے سوال میں الیکشن سے قبل شیڈول اور ووٹر لسٹیں مشتہر نہ کرنے کا سوال پوچھا گیا، ہم نے کسی کو انٹرا پارٹی الیکشن لڑنے سے نہیں روکا، الیکشن کمیشن اس کیس میں براہ راست متاثرہ فریق نہیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ تیسرے سوال میں پوچھا گیا نیشنل کونسل کیوں نہ بناٸی اور وفاقی الیکشن کمشنر کیوں مقرر نہیں کیا، یہ ایسا ہی سوال ہے کہ پہلے مرغی آٸی یا انڈہ، جب تک الیکشن نہ ہو جاٸیں نیشنل کونسل کا قیام ممکن نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اعتراض کیا گیا الیکشن شیڈول میں چیئرمین کے نام کا ذکر نہیں۔
ممبر کمیشن اکرام اللہ نے کہا کہ قانون کے مطابق الیکشن دو حصوں میں ہونا ہے، قانون کے مطابق چیئرمین کے انتخاب کا الگ سے شیڈول نہیں دیا۔
جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ووٹنگ ہی نہیں ہوٸی تو دو حصوں میں انتخاب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، آٸندہ انتخابات دو حصوں میں ہو گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ قانون کے مطابق کچھ عہدوں کی مدت تین سال اور کچھ کی پانچ سال ہے۔
ممبر کمیشن نے کہا کہ آپ سے شیڈیول کا پوچھا گیا ہے، آپ نے تو ایک ہی سیشن بلایا ہے۔
علی ظفر نے جواب دیا کہ ووٹنگ نہیں ہوئی بلا مقابلہ انتخاب ہوا، پینلز ہی نہیں تو کیسے الگ الگ الیکشن ہوتے؟ کہا گیا دو شیڈیول کیوں نہیں دیے گئے، مسلم لیگ ن نے صوبائی انتخابات نہیں کرائے ان کے انتخابات منظور ہوئے۔
ممبر کمیشن نے کہا کہ کیا آپ نے مسلم لیگ ن کے انتخابات کو چیلنج کیا؟ علی ظفر نے جواب دیا کہ ہم نے تو چینلج نہیں کیا لیکن ہمارا انتخاب الیکشن کمیشن نے چیلنج کیا۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ کمیشن نے دوسری جماعتوں کے انتخابات پر اعتراضات کیے، ابھی وقت نہیں ہے ورنہ آپ کو تفصیلات دکھاتے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پوچھا گیا چیئرمین کا بلا مقابلہ انتخاب کیوں کیا، یہ سوال تو بنتا ہی نہیں۔