عام انتخابات کے التواء کیلئے تمام دروازے بند ہوگئے، سپریم کورٹ نے بڑا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ انتخابی شیڈول کے بعد حلقہ بندیوں پر اعتراض نہیں اٹھایا جاسکتا۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ الیکشن پروگرام کے بعد حلقہ بندیوں سے متعلق تمام مقدمہ بازی غیرمؤثر ہوچکی، کسی انفرادی فرد کو ریلیف دینے کیلئے پورے انتخابی عمل کو متاثر نہیں کیا جاسکتا۔
قائم مقام چیف جسٹس سردارطارق مسعود کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت کی۔
دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جو اختیار قانون نے الیکشن کمیشن کو دیا اسے ہائیکورٹ کیسے استعمال کرسکتی ہے؟ اگر اس درخواست پر فیصلہ دیا تو سپریم کورٹ میں درخواستوں کا سیلاب امڈ آئے گا۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ ہمیں اس حوالے سے لکیر کھینچ کر حد مقرر کرنی ہے۔
بینچ کے سربراہ نے کہا کہ سمجھ نہیں آتی سارے کیوں چاہتے ہیں الیکشن التواء میں جائے الیکشن ہونے دیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جب الیکشن شیڈول جاری ہوجائے تو سب کچھ رک جاتا ہے، الیکشن کمیشن کا سب سے بڑا امتحان ہے کہ آٹھ فروری کے انتخابات شفاف ہوں۔
سپریم کورٹ نے بلوچستان ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قراردیتے ہوئے حکم دیا کہ انتخابی شیڈول جاری ہونے کے بعد حلقہ بندیوں پراعتراض نہیں اٹھایا جاسکتا۔
خیال رہے کہ بلوچستان ہائیکورٹ نے بلوچستان کی دو صوبائی نشستوں شیرانی اور ژوب میں الیکشن کمیشن کی حلقہ بندی تبدیل کردی تھی جس کے خلاف الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔
آج نیوز سے گفتگو میں الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کو الیکشن کے پراسیس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے تھی، سپریم کورٹ کے فیصلے سے الیکشن کمیشن کا راستہ ہموار ہوگیا۔
انہوں نے کہا کہ بائیس دسمبر سے کاغذات نامزدگی کی وصولی شروع ہوجائے گی، بارہ جنوری سے بیلٹ پیپرز کی پرنٹنگ شروع ہوجائے گیاور آٹھ فرروی کو الیکشن ہوں گے۔
کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ آر اوز اور ڈی آر اوز کے لیے ایک دن کی تربیت بھی کافی ہے۔
انہوں نے کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا فلاپ ہونا انڈر اسٹینڈنگ نہ ہونا تھا، اس وقت کے وزیراعطم نے براہ راست اعلان کردیا تھا، حالانکہ یہ الیکشن کمیشن کا حق تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اوورسیز پاکستانیز کے ووٹ دینے کا حق دنیا میں کہیں رائج نہیں ہے۔