سقوطِ ڈھاکا کو آج 52 سال مکمل ہوگئے۔ قیامِ پاکستان کے 24 بعد آج ہی کے دن ملک کا مشرقی بازو ہم سے الگ ہوگیا تھا۔ اس سانحے میں کس کا کیا کرداررہا یہ فسانہ اب تاریخ کے صفحات کا حصہ ہے۔
ملک کے قیام کی سلور جوبلی منانے سے قبل ہی ہم ملک کے بڑے بازو سے محروم ہوگئے۔ سابق مشرقی پاکستان قدرت کی فیاضیوں سے مالا مال خطہ تھا۔ اس خطے کے مکین بھی وطن کو چاہنے اور اس چاہت کے اظہار میں کسی سے کم نہ تھے۔ بے مثال جغرافیائی فاصلے اور رنگ، نسل، زبان اور ثقافت کے غیر معمولی فرق کے باوجود سابق مشرقی پاکستان کے مکین دین کی رسی کو تھام کر مغربی مغربی بازو میں آباد ہم وطنوں سے جڑے ہوئے تھے۔
16 دسمبر کو سقوطِ ڈھاکا سے قبل 24 برس تک سابق مشرقی پاکستان کے مکین ہر بحرانی کیفیت میں باقی ملک کے ساتھ کھڑے رہے۔ 1948 میں کشمیر کے محاذ پر دادِ شجاعت دینے کا مرحلہ ہو یا 1965 کی جنگ، بھارت کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے معاملے میں سابق مشرقی پاکستان کے ہم وطنوں نے بھی باقی ملک کا بھرپور ساتھ دیا اور دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوئے۔
سقوطِ ڈھاکا کے اسباب کا تجزیہ کرنے والوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ پاکستانی تجزیہ نگاروں کے علاوہ غیر ملکی مبصرین نے بھی اس سانحے پر بہت کچھ لکھا ہے۔ سقوطِ ڈھاکا میں مرکزی کردار ادا کرنے والے پڑوسی ملک کے لکھاری اور تجزیہ کار بھی قومی مفادات کے تحت متنازع نوعیت کے مضامین اور کتابیں لکھتے رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی بہت سے لکھنے والون نے سقوطِ ڈھاکا کے اسباب کے تجزیے کے ذریعے قوم کو سوچنے اور سمجھنے کی تحریک دینے کی کوشش کی ہے۔