ہمیں بچپن سے پڑھایا گیا ہے کہ لائٹ بلب کا مؤجد تھامس آیڈیسن نامی سائنسدان ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں ہمیں آج تک جو کچھ اس بارے میں پڑھایا گیا وہ سراسر غلط تھا؟
نیو جرسی کے تھامس ایڈیسن نیشنل ہسٹورک پارک کے آرکائیوسٹ لیونارڈ ڈی گراف کہتے ہیں۔ ’ایڈیسن اس مسئلے پر کام کرنے والا پہلا مؤجد نہیں تھا۔‘
درحقیقت، جب ایڈیسن نے اس پر کام شروع کیا تو لائٹ بلب پہلے ہی موجود تھا، لیکن بالکل مختلف شکل میں۔
ڈی گراف کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کے تقریباً 20 مؤجدوں نے لائٹ بلبل کے حوالے سے مختلف پیٹنٹس تیار کیے تھے۔
1806 میں انگریز ہمفری ڈیوی نے اپنا برقی لیمپ رائل سوسائٹی کو دکھایا، لیکن اس کی روشنی جلد ہی ماند پڑ گئی اور اسے بہتر بنانے کی دوڑ شروع ہوگئی۔
1841 میں برطانوی مؤجد فریڈرک ڈی مولینز نے اپنے برنر کو شیشے کے بلب میں بند کر دیا۔
1845 میں، امریکی جے ڈبلیو اسٹار نے ویکیوم اور کاربن برنر کا استعمال کرتے ہوئے پیٹنٹ حاصل کیا۔
انگریز کیمیا دان جوزف سوان نے پھر مختلف مواد کے برنرز کے ساتھ تجربہ کرنا شروع کیا، لیکن ان میں سے کسی نے بھی کام نہیں کیا۔
اس کے بعد ایڈیسن نے جو کچھ کیا وہ موجودہ آئیڈیا میں بہتری تھی۔
اسے یقین تھا کہ وہ پہلا عملی روشنی کا نظام تیار کر سکتا ہے، اس نے مؤجدوں اور عملے کی ایک ٹیم کے ساتھ یہ کام شروع کیا۔
ڈی گراف کے مطابق، ’اپنی نجی تحریروں کو دیکھتے ہوئے، اس نے دیگر اجزاء ایجاد کیے، جیسے کہ بجلی جنریٹر اور اس کی تقسیم کا نظام، اور اس نے ان کی تقسیم کے لیے کمپنیوں کو منظم کیا۔‘
’اس نے ایک ایسا جال تیار کرنے کا فیصلہ کیا جس میں ”اعلیٰ مزاحمت“ کا استعمال کیا جائے جو اسے تباہ کیے بغیر روشن کر دے۔ اس کے بعد اس میں سستا مواد استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے بلب بنانا زیادہ معاشی طور پر ممکن ہو گیا‘۔
بالآخر، ایڈیسن نے پرنسٹن یونیورسٹی کے ماہر طبیعیات فرانسس اپٹن کو مینلو پارک میں واقع اپنی لیب میں اپنی ٹیم میں رکھا۔
1880 کے آخر تک، ٹیم نے بانس کے لمبے برنر کو اپنا لیا تھا جسے فلیمینٹس کہتے ہیں، جو 600 گھنٹے تک جل سکتے تھے۔
اس سے ایڈیسن کو پورے محلے، یہاں تک کہ ایک شہر کو روشن کرنے کا وژن بنانے میں مدد ملی۔
1882 تک، اس نے ایڈیسن الیکٹریکل لائٹ کمپنی بنائی، جو نیویارک شہر کو برقی روشنی فراہم کرتی تھی۔
لہٰذا اگرچہ ایڈیسن نے لائٹ بلب ایجاد نہ بھی کیا ہو تب بھی اس اسے مکمل ضرور کیا، ساتھ ہی ساتھ بڑے علاقوں کو روشن کرنے کا نظام بھی دیا۔
ڈی گراف کا کہنا ہے کہ ہمیں پہلے اس بارے میں مزید جاننا چاہیے کہ ایڈیسن کون تھا۔
ڈی گراف کا کہنا ہے کہ ’اس وقت ایجادات تیزی سے سامنے آرہی تھیں۔ اور لائٹ بلب ایک مشہور مسئلہ تھا۔ ایڈیسن اپنے کام کو میڈیا کے سامنے پیش کرنے اور رپورٹرز کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں بہت اچھا تھا۔ اس نے اچھی کاپی بنائی اور وہ قابل رسائی تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ اس سے اسے شہرت پانے میں مدد ملی۔‘
ڈی گراف کے مطابق ’ایڈیسن سمجھتا تھا کہ میڈیا میں اپنے کام کو مثبت انداز میں پیش کرنے سے بالآخر اس کے سرمایہ کاروں کو فائدہ ہوگا۔ وہ شو مین تھا۔ کبھی کبھی وہ کسی مسئلے کے حوالے سے دعویٰ کرتا تھا کہ اس نے پہلے ہی وہ مسئلہ حل کر لیا ہے‘۔
یعنی اپنی بدنامی اور شہرت کی وجہ سے ایڈیسن قدرتی طور پر دور حاضر کے سب سے بڑے مسئلے اور ایجاد یعنی برقی روشنی سے جڑ پایا ہوگا۔
1920 کی دہائی تک معاشرہ روشن ہوچکا تھا اور ایڈیسن امریکی معاشرے میں ایک مشہور شخصیت بن چکا تھا۔ الیکٹرک لائٹ کی 50 ویں سالگرہ کے دوران اسے اس کے کام کے لیے اعزاز سے نوازا گیا۔
ڈی گراف نے کہا کہ ’میں ایڈیسن کی شراکت کو کم سمجھنے والا نہیں ہوں، اس نے برقی روشنی کے نظام کی تخلیق کا آغاز کیا، جو بالآخر ایڈیسن جنرل الیکٹرک میں ضم ہو گیا اور پھر صرف جنرل الیکٹرک بن گیا، اس نے لائٹ بلب کو تجارتی لحاظ سے قابل عمل مصنوعات بنا دیا۔‘