لاہور ہائیکورٹ نے میڈیا کو زیر حراست ملزمان کا انٹرویو کرنے سے روک دیا۔ عدالت عالیہ نے تحریری فیصلہ بھی جاری کردیا جس میں کہا گیا ہے کہ بغیر اجازت انٹرویو لوگوں کی پرائیویسی میں دخل اندازی ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی ضیا باجوہ نے زیر حراست افراد کے میڈیا انٹرویو کرنے کیخلاف درخواست پر سماعت کی۔
دوران سماعت عدالتی حکم پر ڈی آئی جی آپریشن اور ڈی آئی جی انوسٹی گیشن عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا زیر حراست ملزمان کا انٹرویو پولیس کی اجازت سے لیا جاتا ہے، یوٹیوب چینلز کو کیسے روکا جائے؟
پیمرا کے وکیل نے بتایا کہ سوشل میڈیا کو پیمرا ریگولیٹ نہیں کرتا، جبکہ عدالتی معاون بیرسٹر احمد پنسوتا نے بتایا کہ ایف آئی اے کے پاس اختیار ہے کہ کسی قابل اعتراض مواد کو روکے۔
عدالت نے پیمرا سمیت دیگر متعلقہ حکام سے رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر پیمرا کے سینئر افسران اور ڈی جی ایف آئی اے کو طلب کر لیا۔
لاہور ہائیکورٹ نے ملزمان کے زیر حراست انٹرویو کرنے کے خلاف دائر درخواست کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔ جسٹس علی ضیا باجوہ نے تین صفحات پر مشتمل حکم نامہ جاری کیا۔
تحریری حکم نامہ میں کہا گیا کہ بغیر اجازت انٹرویو لوگوں کی پرائیویسی میں دخل اندازی ہے، غیر متعلقہ شخص کی جانب سے کسی بھی شخص کو جواب دینے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، بدقسمتی سے یہ کام سرکاری عہدے داروں کی مدد کے ساتھ ہوتا ہے۔
عدالت عالیہ نے تحریری حکم نامہ میں لکھا کہ پرائیویسی کا حق آزادی اظہار رائے کی طرح مقدس ہے، کسی قانونی جواز کے بغیر کسی کی پرائیویسی متاثر کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
حکم نامہ میں کہا گیا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالت کی معاونت کریں، آئندہ سماعت پر پیمرا اور ایف آئی اے عمل درآمد رپورٹ پیش کریں، سرکاری عہدیدار ایسے عمل کی حمایت نہ کریں جو بنیادی حقوق کے خلاف ہو۔
لاہور ہائیکورٹ نے کیس کی سماعت 20 دسمبر تک ملتوی کر دی۔
لاہور ہائیکورٹ نے عام انتخابات کیلئے پنجاب کی بیوروکریسی سے ریٹرننگ افسران لینے کیخلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی نے عمیر نیازی کی درخواست پر سماعت کی، درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے حوالے سے ریٹرننگ افسران کیلئے حکومت سے رابط کیا، نگران حکومت سے غیر جانبدار اور شفاف انتخابات کی امید نہیں کی جا سکتی۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے درخواست کو ناقابل سماعت قرار دینے کی استدعا کی اور بتایا کہ عدلیہ کو خطوط لکھے مگر کیسز کے باعث انہوں نے جوڈیشل افسران دینے سے انکار کیا۔
عدالت نے وکلاء کے دلائل کے بعد درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔