سوشل میڈیا صارفین اپنی رائے کا اظہار کرنے یا چُلبلے تبصروں کے لیے میمز کا سہارا لیتے ہیں، اُن کی جانب سے تو ایموجیز اور میمز کا استعمال سمجھ میں آتا ہے لیکن بھارتی وزیراعظم سنگین مسائل پر اظہار رائے کیلئے ایسا کیوں کررہے ہیں؟ یہ ایک ملین ڈالرسوال ہے.
منگل 12 دسمبر کو مودی نے بی جے پی کی ایک ایکس پوسٹ ری شیئرکی جس میں مشہور ٹی وی سیریز ’منی ہائسٹ‘ کی ایک ویڈیو استعمال کی گئی تھی.
یہ پوسٹ جھاڑ کھنڈ سے راجیہ سبھا رکن پارلیمنٹ دھیرج ساہو کے پاس سے 350 کروڑ بھارتی روپے کی نقد رقم ضبط کیے جانے کے بعد حریف جماعت کانگریس پر طنز تھا۔
8 دسمبر کو بھارتی وزیراعظم مودی نے 8 دسمبر کو نقدی سے بھری الماریوں کی ایک اخباری تصویر کا استعمال کیا تھا۔ یہ خبر رکن کانگریس کے گھرچھاپے کے دوران ضبط کیے گئے کروڑوں روپے سے ہی متعلق تھی۔
دلچسپ بات یہ تھی کہ ہندی میں کی جانے والی اس ٹویٹ کو ریڈ کراس اور بینک نوٹ ایموجیز کے ساتھ پیپر کیا گیا تھا۔ اس میں ایموجیز بھی تھے جن میں آنسوؤں میں ہنسنے کی عکاسی کی گئی تھی۔ وزیر اعظم کی جانب سے اس طرح کا یہ دوسرا ایموجیز سے بھرا ٹویٹ تھا۔
ایموجیز اتنے عام ہیں کہ ہم مختلف پیغامات کے لیے اپنے جذبات ظاہر کرتے ہوئے انہیں استعمال کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ بھی ’ایک تصویر ہزار الفاظ کی عکاس ہوتی ہے‘ والی بات پر پورا اترتے ہیں۔
لیکن ایک قومی رہنما کے لیے ایموجیز اور پاپ کلچر کا حوالہ استعمال کرنا غیر روایتی ہے، تاہم نریندرمودی ایک ایسے رہنما کے طور پرجانے جاتے ہیں جو روایتیں توڑنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔
وزیر اعظم مودی نے پہلی بار 5 دسمبر کو ایکس پوسٹ میں ایموجیز کا استعمال کیا تھا جس نے انٹرنیٹ صارفین کو خاصی حیرت سے دوچار کیا تھا۔
وزیر اعظم نے انڈیا ٹوڈے ٹی وی کے اینکر شیو ارور کا ’میلٹ ڈاؤن اعظم‘ کلپ شیئر کیا۔ پوسٹ جس میں انہوں نے کانگریس کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا ، انتباہ اور ہنسی کے ایموجیز سے بھرپور تھی۔
یہ اتنا غیر متوقع تھا کہ بیشترصارفین نے یہ تک سوچا کہ شاید وزیر اعظم مودی کا ایکس ہینڈل ہیک ہوگیا ہے۔
یہ ایک ہیکر کا کام نہیں تھا اور نہ ہی یہ سوچے سمجھے بنا کیا گیا تھا۔ (لگاتار ایسی پوسٹس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے)۔ یہ نیا نقطہ نظر مودی کے روایتی رسمی اور پیمائش شدہ انداز سے ہٹ کر ایک اہم تبدیلی ہے۔
وزیر اعظم مودی ایموجیز اور پاپ کلچر کے حوالہ جات کا استعمال کیوں کر رہے ہیں اس کی وجہ ملک کے نوجوانوں سے اُن کی اپنی زبان میں جڑنا ہے۔ اور ایموجیز کی یہ زبان تمام رکاوٹوں کو عبور کرتی ہے۔ یہ اقدام ڈیجیٹل طور پر سمجھدار سامعین کو راغب کرنے کے لیے ایک اسٹریٹجی کی نشاندہی کرتا ہے۔
بھارتی وزیر اعظم کی توجہ ہمیشہ ملک کے نوجوانوں پر رہی ہے۔ کئی تقاریر میں وہ اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ کس طرح ملک کے نوجوان ہی بھارت کو نئی بلندیوں پر لے جائیں گے۔
بھارتی نوجوان ہی 2024 کے انتخابات میں یہ فیصلہ کریں گے کہ آئندہ 5 سال کے لیے کون ملک کی قیادت کرے گا۔ جنریشن زی (نئی نسل ) کے تقریبا 41 ملین ارکان 2024 میں ووٹ ڈالنے کے اہل ہوں گے، جن میں 8.3 ملین پہلی بار ووٹ ڈالنے والے بھی شامل ہوں گے۔
شاید اسی لیے مودی کو یہ لگا کہ دعنوانی جیسے اہم مسائل کو نوجوان تک اُن کی اپنی زبان میں پہنچایا جائے کیونکہ رائے دہندگان کا ایک بڑا حصہ یہ نوجوان سوشل میڈیا اور پاپ کلچر کے ساتھ اپنی وابستگی کے لیے جانے جاتے ہیں۔
وزیر اعظم مودی کے ذریعہ ایموجیز کا اسٹریٹجک استعمال ایک مقبول رہنما کے طور پر ان کی ساکھ سے بھی مطابقت رکھتا ہے جو قوم کی نبض کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔