چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس اعجاز الحسن کو جوابی خط میں لکھا کہ میرے دروازے اپنے تمام ساتھیوں کے لیے ہمیشہ کھلے ہیں، میں انٹر کام اور فون پر بھی ہمیشہ دستیاب ہوں۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے جسٹس اعجاز الاحسن کو جوابی خط لکھ دیا جبکہ چیف جسٹس کا جوابی خط سپریم کورٹ ویب سائٹ پر شیئر کردیا گیا۔
چیف جسٹس نے جوابی خط میں مزید کہا کہ میرے دروازے اپنے تمام ساتھیوں کے لیے ہمیشہ کھلے ہیں، میں انٹر کام اور فون پر بھی ہمیشہ دستیاب ہوں، آپ نے اپنے تحفظات کے لیے نہ مجھے کال کی، نہ ملاقات کے لیے آئے، آپ کا خط ملنے پر فوری آپ کے انٹر کام پر رابطے کی کوشش کی لیکن جواب نہ ملا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط میں مزید کہا کہ میں نے اپنے اسٹاف کو آپ کے ساتھ رابطے کا کہا، اسٹاف نے بتایا کہ آپ جمعہ دوپہر لاہور چلے گئے ہیں، ہمیں 6 دن کام کرنے کی تنخواہ ملتی ہے نہ کہ ساڑھے 4 دن کی۔
چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ جج کی پہلی ذمہ داری عدالتی فرایض کی انجام دہی ہے، آپ کی درخواست پر کمیٹی اجلاس جمعرات کو رکھے گئے، جمعرات کو اجلاس رکھنا شاید غلطی تھی۔
سیاسی اشرافیہ کے ہاتھوں کھلونا بننے سے انکار پر نتائج بھگت رہا ہوں،جسٹس مظاہر نقوی کا خط
جسٹس مظاہر نقوی نے چیف جسٹس، جسٹس سردار طارق اور جسٹس اعجاز الاحسن کوخط لکھ دیا
انہوں نے سول کیا کہ مشورہ کرنے میں دلچسپی نہ ہوتی تو جس ایکٹ کو آپ نے معطل کیا تھا اس پر عمل کیوں کرتا؟ اگر مجھے ججز کمیٹی کے فیصلوں پر عمل نہ کرنا ہوتا تو اس کارروائی کو پبلک کیوں کرتا؟
چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ ججز کمیٹی کے 3 اجلاس آپ کی عدم موجودگی کی وجہ سے ملتوی ہوئے، ججز روسٹرز پر آپ کے اعتراضات ہیں تو نیا اجلاس بلا کر نئے بینچز کی تشکیل پر غور ہو سکتا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں بینچز کی تشکیل پر جسٹس اعجاز الاحسن نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھ کر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔