اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی نے منگل کو شرح سود 22 فیصد برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس موقع پر جو اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں پاکستانی معیشت کی تازہ ترین صورت حال بھی بتائی گئی ہے۔
مرکزی بینک کے مطابق پاکستان کی شرح نمو یعنی جی ڈی پی رواں مالی سالی کی پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) میں 2.1 فیصد ریکارڈ کی گئی جو پچھلے مالی سال کے اسی عرصے میں صرف ایک فیصد تھی۔ جی ڈی پی میں اضافے کا سبب زرعی پیداوار میں بہتری ہے۔ اسٹیٹ بینک کے بقول صنعت کا شعبہ بھی کسی حد تک بحال ہوا اور اس کا سبب بڑی صنعتوں کی پیداوار میں بہتری ہے جو پچھلے ایک برس سے خراب تھی۔ لیکن خدمات کے شعبے میں حالات بہتر نہیں ہوئے۔
حکومت نے اپنے مالی معاملات کافی بہتر کیے ہیں اور جولائی تا اکتوبر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہو کر صرف 1.1 ارب ڈالر رہ گیا ہے۔ درآمدات میں کمی آئی ہے۔ برآمدات میں اضافہ ہوا ہے لیکن مانیٹری پالیسی رپورٹ کے مطابق یہ اضافہ خوراک بالخصوص چاول کی برآمد سے ہوا۔
یاد رہے کہ بھارت نے اپنے چاول کی برآمد پر پابندی لگا دی ہے جس کی وجہ سے بیرون ملک پاکستانی چاول کی طلب بڑھی ہے۔
بیرون ملک سے پاکستانیوں کی ترسیلات زر میں بھی اضافہ دیکھا گیا۔ مانیٹری پالیسی رپورٹ میں اس کا سہرا فنڈز ٹرانسفر کی سہولتوں کو بہتر بنانے اور بلیک مارکیٹ سے رقوم کی منتقلی پر کریک ڈاؤن پر باندھا گیا۔ دوسرے لفظوں میں ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کیخلاف کارروائیوں کا فائدہ پہنچا۔
لیکن ڈالر زیادہ آنے کے باوجود زرمبادلہ کے ذخائر میں کوئی اضافہ نہیں ہوا اس کی وجہ قرضوں کی ادائیگی ہے۔ ایسے میں اسٹیٹ بینک نے آئی ایم ایف سے اگلی قسط کا معاہدہ ہونے پر امیدیں لگا لی ہیں۔
مانیٹری پالیسی رپورٹ میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ حکومت نے ٹیکس اور نان ٹیکس محصولات کے ذریعے لوگوں سے خوب پیسے نکلوائے ہیں۔ ایف بی آر نے 29.4 فیصد زیادہ ٹیکس جمع کیا جب کہ پیٹرولیم لیوی وغیرہ سے بھی حکومت کو آمدن ہوئی۔
مانیٹری پالیسی رپورٹ میں کہا گیا کہ براڈ منی ایم ٹو میں اضافے کی شرح 14.2 فیصد سے کم ہو کر 13.7 فیصد ہوگئی ہے۔ دوسرے لفظوں میں حکومت نے نوٹ چھاپنے کم کردیئے ہیں۔
مرکزی بینک نے مہنگائی کا بھی اعتراف کیا لیکن ساتھ ہی امید ظاہر کی کہ رواں مالی سال کے دوسرے حصے میں یعنی سال 2024 کے پہلے چھ ممہینے میں مہنگائی کی شرح میں نمایاں کمی آئے گی۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق بین الاقوامی سطح پر اشیا کی قیمتوں میں کمی متوقع ہے جب کہ ملک کے اندر طلب میں اضافہ اور اشیا کی فراہمی میں بہتری ہوگی۔ اس صورتحال کے نتیجے میں مہنگائی کم ہوگی۔