سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف 21 اکتوبر کو جب سالہ خود ساختی جلاوطنی ختم کرکے پاکستان واپس آئے تو انہیں مختلف مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔
سب سے پہلے تو انہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں سزا معطلی کی اپنی دونوں اپیلی بحال کرائیں جو علاج کیلئے بیرون ملک جانے کے بعد عدم پیروی پر خارج کردی گئی تھیں۔
پانامہ جے آئی ٹی کی تحقیقات کے بعد نیب نے نواز شریف کے خلاف احتساب عدالت میں 3 ریفرنس ”العزیزیہ، ایون فیلڈ اور فلیگ شپ“ دائر کیے تھے۔
نواز شریف نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنسز میں احتساب عدالت سے سنائی گئی سزاؤں کے خلاف اپیلیں دائر کی تھیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے 29 نومبر 2023 کو ایون فیلڈ ریفرنس میں انہیں بری کیا۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ ریفرنس میں انہیں 10 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں ہائیکورٹ شریک ملزمان مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو پہلے ہی بری کر چکی تھی۔ اسی ریفرنس میں شریک ملزمان مریم نواز کو 7 سال جبکہ کیپٹن ریٹائر صفدر کو 1 سال قید کی سزا ہوئی۔
12 دسمبر 2023 کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف کی سزا معطلی کی اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے انہیں العزیزیہ ریفرنس سے بھی بری کردیا۔ احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں نواز شریف کو 7 سال قید کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کر دیا گیا تھا۔
نیب نے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی بریت کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی تھی، تاہم، یہ اپیل واپس لے لی گئی، اور یوں فلیگ شپ ریفرنس کا قصہ بھی تمام ہوا۔
نواز شریف کے خلاف مارچ 2020 میں نیب نے توشہ خانہ ریفرنس دائر کیا تو وہ ملک سے باہر تھے، اس کیس میں شریک ملزمان آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی سمیت دیگر پر تو فرد جرم عائد ہوئی، تاہم نواز شریف کو عدالت میں پیش نہ ہونے کے باعث اس ریفرنس میں اشتہاری قرار دے دیا گیا۔
نواز شریف کو اب ٹرائل کورٹ میں توشہ خانہ سے مرسڈیز گاڑی لینے پر بنائے گئے اس ریفرنس کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ کیس ابھی بھی زیر سماعت ہے اور اس میں نواز شریف کو کوئی سزا نہیں ہوئی ہے۔
اس کے علاوہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نواز شریف کو نااہل کیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے نواز شریف کو اپنے بیٹے کی فرم سے لی جانے والی ممکنہ تنخواہ ظاہر کرنے میں ناکامی پر آرٹیکل ون ایف کے تحت کوئی بھی عوامی عہدہ سنبھالنے کیلئے نااہل قرار دیا تھا۔
اس نااہلی کو تاحال ختم نہیں کیا گیا۔
نواز لیگ کے حامی موقف رکھتے ہیں کہ الیکشن ایکٹ میں پی ڈی ایم دور میں ہوئی ترمیم کے تحت نااہلی کی مدت پانچ برس ہوچکی ہے اور نواز شریف کو جولائی 2017 میں دی گئی نااہلی کی سزا کے پانچ برس مکمل ہوچکے ہیں لہذا وہ الیکشن لڑنے کے اہل ہے۔
تاہم یہ معاملہ تشریح طلب ہے اور سپریم کورٹ نے پیر کو ریمارکس دیئے ہیں کہ تاحیات نااہلی پر سپریم کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن ایکٹ ساتھ نہیں چل سکتے، صرف ایک رہے گا۔