دبئی میں جاری موسمیاتی سربراہی اجلاس ”کوپ 28“ کو ناکامی کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ مغربی ممالک تیل اور گیس کا استعمال رکوانے کیلئے ضد پر اڑ گئے۔
مغربی ممالک نے کوپ 28 کے میزبان متحدہ عرب امارات پر الزام لگایا کہ تیل پیدا کرنے والا ملک کانفرس کو ڈکٹیٹ کر رہا ہے۔
مغربی ممالک کا کہنا ہے کہ فوسل فیولز کو جلد از جلد ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے، جبکہ متحدہ عرب امارات کے اتحادی سعودی عرب اور روس تیل، کوئلے اور گیس کے مرحلہ وار خاتمے کی مخالفت کر رہے ہیں۔
آسٹریلیا، امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور جاپان سمیت کئی ممالک نے فوسل ایندھن اور آب و ہوا کے بحران سے نمٹنے کے لیے کوپ 28 سربراہی اجلاس میں ایک مضبوط معاہدے کا مطالبہ کردیا۔
آسٹریلیا کے وزیر موسمیاتی تبدیلی کرس بووین کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا جب متحدہ عرب امارات میں سربراہ اجلاس کی صدارت کی جانب سے تجویز کردہ معاہدے کے مسودے کے متن پر کشیدگی بڑھ چکی ہے۔
اس مسودے میں تقریبا 200 ممالک سے اتفاق رائے حاصل کرنے کی کوشش میں فوسل ایندھن کو ’مرحلہ وار‘ ختم کرنے کے انتہائی متنازع مطالبے سے گریز کیا گیا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی پیرس معاہدے (سی او پی 28) کے مسودے کو مبصرین کی جانب سے ملے جلے رد عمل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کچھ لوگوں نے ان عناصر کا خیر مقدم کیا، جیسے فوسل ایندھن کی پیداوار کو کم کرنے کا پہلا ذکر، جبکہ دوسروں نے سخت تنقید کرتے ہوئے اسے ”انتہائی ناکافی“ اور ”غیر مربوط“ قرار دیا۔
الائنس آف سمال آئی لینڈ اسٹیٹس کے سربراہ ساموا کے سیڈرک شوسٹر نے کہا کہ وہ اپنے ڈیتھ سرٹیفکیٹ پر دستخط نہیں کریں گے اور ایسے متن پر دستخط نہیں کر سکتے جس میں فوسل ایندھن کو مرحلہ وار ختم کرنے کے بارے میں مضبوط وعدے نہیں ہیں۔
یہ گروپ، جس میں دنیا کے سب سے بڑے فوسل ایندھن استعمال کرنے والے اور پروڈیوسر شامل ہیں، ”بلا روک ٹوک“ فوسل ایندھن کو مرحلہ وار ختم کرنے پر یقین رکھتے ہیں، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اگر کاربن پکڑنے اور ذخیرہ کرنے کی ٹیکنالوجی قابل عمل ثابت ہوتی ہے تو کوئلہ، تیل اور گیس کو اب بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
مسودے میں اس طرح کی کٹوتیوں کو اختیاری قرار دیتے ہوئے ممالک سے کہا گیا ہے کہ وہ ایسے اقدامات کریں جن میں فوسل ایندھن کو کم کرنا شامل ہو۔ یورپی یونین سمیت کچھ ممالک کے گروپوں نے اشارہ دیا ہے کہ اگر اس پر توجہ نہ دی گئی تو وہ مذاکرات سے دستبردار ہو سکتے ہیں۔
خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ سعودی عرب اور اوپیک میں اس کے تیل پیدا کرنے والے اتحادی اس مسودے کو مزید کمزور کرنے کی کوشش کے لیے آخری گھنٹوں کا استعمال کر سکتے ہیں۔
متن میں سائنسی مشورے کا حوالہ بھی شامل ہے جسے بہت سے ممالک موسمیاتی تبدیلی سے متعلق بین الحکومتی پینل کے حوالہ کے طور پر تشریح کر سکتے ہیں ، جس نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ 2050 میں فوسل ایندھن صرف ایک چھوٹا سا کردار ادا کرسکتا ہے اگر دنیا خالص صفر اخراج تک پہنچ جائے اور اوسط عالمی حرارت کو صنعتی سطح سے پہلے کی سطح سے 1.5 سینٹی گریڈ تک محدود کردے۔
اس کے علاوہ امیر ممالک کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ وہ کمزور ممالک کے لئے آب و ہوا کی مالی اعانت میں درکار اربوں روپے کی فراہمی میں ناکام رہے ہیں۔
پیر کو کوپ 28 کے بند کمرہ اجلاس میں جو کچھ ہوا اس کا مختصر جائزہ ”دی گارڈئین“ اخبار نے پیش کیا، جس کے مطابق کئی ممالک نے فوسل فیول کے خلاف سخت مؤقف کی مخالفت کی تو کچھ نے اس کی حمایت کی۔
فوسل فیول پر سخت مؤقف کی واضح طور پر مخالفت کرنے والے ممالک میں سعودی عرب شامل تھا جس نے 22 عرب ممالک کے گروپ کی طرف سے بات کی، اس کے علاوہ قطر اور بولیویا بھی ان ممالک میں شامل تھے۔
فوسل فیول پر سخت مؤقف کی حمایت کرنے والے ممالک میں یورپی یونین، سامووا (چھوٹے جزیروں کی ریاستوں کا اتحاد) ، ٹووالو، کولمبیا جس نے لاطینی امریکہ اور کیریبین گروپ AILAC کی جانب سے بات کی، بنگلہ دیش، آسٹریلیا نے امبریلا گروپ کی جانب سے جس میں امریکہ، برطانیہ اور ناروے شامل ہیں ان کی جانب سے بات کی، اس کے علاوہ امریکہ اور ناروے نے بھی الگ الگ بات کی۔
کوپ 28 کے بند کمرہ اجلاس میں دیگر ممالک نے بھی بات کی جن میں کیوبا، چین، بھارت اور پاکستان شامل تھے۔
کیوبا نے جی 77+ چائنا گروپ جس میں 135 رکن ممالک ہیں ان کی جانب سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امیر ممالک کو پہلے موسمیات پر عمل کرنا چاہیے اور غریب ممالک کو کام کرنے میں مدد دینی چاہیے۔ برازیل نے بھی یہ پوائنٹس بتائے۔
چین نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک کو چوٹی پر پہنچنے میں 150 سال سے زیادہ کا عرصہ لگا، اس لیے متن میں 2025 میں عالمی سطح پر کاربن کے اخراج کا حوالہ نہیں دیا جانا چاہیے۔
بھارت نے کہا کہ متن میں سب سے اہم عنصر جو غائب ہے وہ تاریخی مجموعی اخراج ہے ۔جبکہ پاکستان کا کہنا تھا کہ کسی بھی چیز کو حاصل کرنے کے لیے موسمیاتی مالیات کی فراہمی اہم ہے۔ پاکستان صاف ستھرے توانائی کے ذرائع پر منتقلی کیلئے کئی سالوں سے تیار ہے لیکن اس کے لیے اربوں ڈالر کی ضرورت ہے۔