سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی سزائے موت کے خلاف صدارتی ریفرنس پر 11 سال بعد ہونے والی سماعت جنوری 2024 تک ملتوی کردی گئی۔ سپریم کورٹ نے کیس میں 9 عدالتی معاونین مقرر کردیے۔
صدارتی ریفرنس کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجربینچ نے کی۔ عدالتی کارروائی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر براہ راست دکھائی گئی۔
لارجربینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس سردارطارق ، جسٹس منصور،جسٹس یحییٰ آفریدی ،جسٹس امین ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس علی مظہر،جسٹس حسن اظہراور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
چیف جسٹس نے سماعت جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے آج کی سماعت کاحکم نامہ لکھوایا۔ حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ عدالتی معاونین کو نوٹس جاری کرکےجواب لیا جائے۔عدالت نے آئینی اورفوجداری معاملات کے 9 ماہرین کومعاون مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
حکمنامے کے مطابق آرٹیکل 186 کے تحت صدارتی ریفرنس دائر کردیا گیا، آخری بار صدارتی ریفرنس 2012 میں سنا گیا، بدقسمتی سے یہ ریفرنس اس کے بعد سنا نہیں گیا اور زیر التوا رہا۔ صدارتی ریفرنس کی کاررواٸی لاٸیو دکھاٸی گٸی جس سے لائیو سے منعلق بلاول بھٹو کی درخواست غیرموثرہوگٸی۔ سپریم کورٹ بلاول بھٹو کی درخواست غیرموثرہونےپرنمٹاتی ہے۔
حکمنامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عدالت کہ بتایاگیا کہ ذوالفقار بھٹو کی صرف ایک بیٹی زندہ ہیں ، اُن کے8 پوتے پوتیاں،نواسے نواسیاں ہیں۔ ورثا کی جانب سے جو بھی وکیل کرنا چاہےکرسکتا ہے۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ عدالتی معاون تحریری یا زبانی طور پرمعاونت کرسکتے ہیں۔ جسٹس (ر)منظورملک عدالتی معاون مقرر کٸے جاتے ہیں۔ خواجہ حارث بطورایڈوکیٹ جنرل پنجاب اس کیس کا حصہ رہ چکے ہیں، انہیں سلمان صفدر، رضاربانی، خالدجاوید ، زاہد ابراہیم اور یاسر قریشی کو بھی معاون مقرر کیا جاتا ہے۔ عدالت نے مخدوم علی خان اورعلی احمد کرد کو بھی عدالتی معاون مقرر کیا۔
احمد رضا قصوی جن کی درج کردہ ایف آئی آر کی بنا پر بھٹو کو پھانسی ہوئی تھی بھی عدالت میں موجود تھے۔ انہوں نے رضا ربانی کو عدالتی معاون مقرر کرنے پر اعتراض اٹھایا اور کہا کہ غیرجانبدار ماہرین کو ہی عدالتی معاون مقرر کیا جائے۔
احمد رضا قصوی کا یہ بھی کہنا تھا کہ صدارتی ریفرنس سے بعض سیاسی جماعتیں الیکشن میں فائدہ اٹھا سکتی ہیں لیکن اس کی کارروائی 8 فروری کے انتخابات کے بعد تک ملتوی کی جائے۔
جسٹس منصور نے فاروق نائیک سے مکالمہ کیا کہ آپ عدالت کوکوئی قانونی حوالہ تو دیں، آرٹیکل 186 کے تحت دائر صدارتی ریفرنس کے ذریعے سپریم کورٹ کے فیصلوں کی نظرثانی نہیں ہوسکتی، اب ہم بھٹو فیصلے کو چھو بھی نہیں سکتے، عدالت کو بتائیں کو جو معاملہ حتمی ہوکر ختم ہوچکا اسے دوبارہ کیسے کھولیں؟ اس پر فاروق نائیک نے کہا کہ بھٹو کیس عوامی اہمیت کا حامل کیس تھا۔،
جسٹس منصور نے کہا کہ عوامی اہمیت کا حامل سوال صدر نے دیکھنا تھا،عدالت قانونی سوال دیکھے گی، جوبھی کیس ہو عدالت قانونی سوالات کے بغیرفیصلہ کیسے کرسکتی ہے؟ عدالت کس قانون کے تحت یہ ریفرنس چلائے؟
عوامی جلسوں اور پریس کانفرنسز میں ریفرنس کو سماعت کیلئے مقررکرنے استدعا کرنے والے پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ روز وکیل فاروق ایچ نائیک کی وساطت سے صدارتی ریفرنس پرعدالتی کارروائی براہ راست دکھانے کی درخواست دائر کی تھی۔
سماعت میں بلاول بھٹو زرداری اورسابق صدر آصف علی زرداری بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
صدارتی ریفرنس سابق صدرآصف علی زرداری نے اپریل 2011 میں سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا جو گزشتہ 12 سال سے زیر التوا ہے۔ پہلی 5 سماعتیں سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخارچوہدری کی سربراہی میں 11 رکنی بینچ نے کیں۔
سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل اوربلاول بھٹو کی نمائندگی کرنے والے فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نےکہا کہ پہلےیہ دیکھ لیتے ہیں کون کس کی نمائندگی کرتاہے۔
اس پر فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ بلاول بھٹو نے فریق بنےکی درخواست دے دی ہے، میں اُن نمائندگی کروں گا۔
چیف جسٹس نے بینچ کی تشکیل پروضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ صدارتی ریفرنس ابھی بھی برقرارہےیہ واپس نہیں کیاگیا۔ ایک سینئرممبربینچ میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے۔ 2 اور ججزنے ذاتی وجوہات پر معذرت کی، اس کے بعد 9 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا۔ ہم آپ کوورثا،بحثیت وکیل سیاسی جماعت بھی سن سکتےہیں۔
چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ اس ریفرنس کو فائل کیے جانے کے بعد کتنےصدور آئے، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ، ’ان کے بعد دو صدورآچکے ہیں‘ ۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کسی صدرنے یہ ریفرنس واپس نہیں لیا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے ریفرنس پہلے سماعت کیلئے مقرر نہ کےجانے پرافسوس کا اظہارکرتا ہوں۔
چیف جسٹس کی ہدایت پراٹارنی جنرل نے کمرہ عدالت میں صدارتی ریفرنس پڑھا۔
بلاول کی نمائندگی کرنے والےفاروق ایچ نائیک نے کہا کہ، ’سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے ٹی وی انٹرویو میں تسلیم کیا تھا کہ ان پر دباؤ تھا۔دوسرے انٹرویو میں جسٹس نسیم شاہ نے کہا مارشل لا والوں کی بات ماننی پڑتی ہے‘ ۔ ’یہ انٹرویو جیو پر پروگرام جوابدہ میں افتخار احمد کو دیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ 2018 میں بھی ریفرنس پر سماعت کے لیے درخواست دائر کی تھی۔
جسٹس مسرت ہلالی کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ میں ٹرائل کےدوران بینچ پراعتراض کیے جانے سے متعلق استفسار پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق کئی درخواستیں دی گئی تھی۔
اس دوران اس مقدمے کے مدعی احمد رضا قصوری روسٹروم پر آئے اور سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے نوائےوقت کو انٹرویو کاحوالہ دیا۔ (ذوالفقارعلی بھٹواحمد رضا قصوی کے والد کے قتل کے مقدمے میں نامزد تھے جس میں انہیں پھانسی دی گئی)۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا آپ نسیم حسن شاہ کے انٹرویوپرانحصار کریں گے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو دلائل جاری رکھنے کی ہدایت کی جنہوں نے ریفرنس پر اٹھائے گئے قانونی نکات بھی پڑھ دیے۔ چیف جسٹس کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس وقت آصف زرداری کے ریفرنس پر بابراعوان نے نمائندگی کی تھی۔
چہف جسٹس نے پوچھا کہ کیا بابراعوان کمرہ عدالت میں موجود ہیں؟ جس ہر فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ بابراعوان کا لائسنس اس وقت معطل ہوگیا تھا، وہ اس وقت کی حکومت کی نمائندگی کررہےتھے۔
اس دوران مدعی مقدمہ احمد رضا قصوری دوبارہ روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ پہلے ہمیں اٹارنی جنرل کوسن لینے دیں۔
جسٹس میاں محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا اس میں ضمنی ریفرنس بھی آیا تھ؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ متفرق درخواست کے ساتھ چیزیں آئی تھیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس میں کئی وکلا وفات پاچکے ہیں۔ کیس میں عدالتی معاونین مقرر کریں گے جن کے ناموں کا فیصلہ بعد میں کرتے ہیں۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میں انٹرویوزکا ٹرانسکرپٹ اورویڈیوزپیش کروں گا۔ جس پر احمد رضا قصوری بولے کہ یہ چیزیں تو میں نے دینی تھیں۔
چیف جسٹس نے علی احمد کرد سے پوچھا کہ کیا آپ معاونت کریں گے جس پر انہوں نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ، ’جی میں معاونت کروں گا‘۔
مخدوم علی خان اور اعتزازحسن کے معاونین وکلاء نے عدالت کو بتایا کہ مخدوم علی خان کومعلوم نہیں تھا وہ اس کیس میں ہیں یا نہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ عدالتی معاون تھے، کسی کو مجبورنہیں کر سکتے۔
اعتزاز احسن کے آنے سے متعلق استفسار پرمعاون وکیل نے کہا کہ اعتزازاحسن وکیل بھی ہیں ، بطورمعاون نہیں آئیں گے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ، ’آپ تقریرنہ کریں ہاں یا نہ میں بتائیں‘۔ معاون وکیل نے نفی میں جواب دہیتے ہوئے کہا کہ، ’نہیں وہ نہیں آئیں گے‘۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پولیس سے کیس کا اصل ریکارڈ ملاتھا؟ اتارنی جنرل نے بتایا کہ اصل ریکارڈ نہیں ملا۔ فاروق ایچ نائیک بولے کہ ریکارڈ کے 3 بنڈل آئے تھے۔
علی احمد کرد نے کہا کہ مجھے عدالت نے عدالتی معاون مقررکیا تھا، ریفرنس میں عدالت کی معاونت کروں گا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا کوئی اورعدالتی معاون ہے؟ معاون وکیل سعد ہاشمی نے بتایا کہ مخدوم علی خان بھی عدالت کی معاونت کریں گے۔
چیف جسٹس نے مزید پوچھا کہ صدارتی ریفرنس میں اب تک کیا احکامات دیے گئے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ صدارتی ریفرنس میں عدالت نے پنجاب پولیس سے بھٹو ریفرنس کا ریکارڈ منگوایاتھا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدالتی حکم میں توبہ کاتذکرہ کیاگیا، کیا کوئی بتائےگا کیوں ذکرہوا، کیاوکیل فاروق نائیک اوراحمدرضاقصوری بتا سکتے ہیں؟۔احمد رضا قصوری نے جواب میں کہا کہ ، ’ اس چیزکا ماہرنہیں ہوں عدالت کسی عالم کوبلائے’۔
آصف علی زرداری نے صدارتی ریفرنس میں پانچ سوالات اٹھاتے ہوئے سپریم کورٹ سے رائے طلب کی تھی۔
کیا سابق وزیراعظم ذوالفقاربھٹو کے قتل کا ٹرائل آئین میں شامل بنیادی انسانی حقوق کے مطابق تھا؟
کیاپھانسی کی سزا کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پرآرٹیکل 189 کے تحت سپریم کورٹ اورتمام ہائیکورٹس پر لاگو ہو گا؟اگر نہیں تو فیصلے کے نتائج کیا ہونگے؟
کیا سپریم کورٹ کا فیصلہ منصفانہ تھا؟ کیا ذاولفقارعلی بھٹو کو سزائے موت سنانے کا یہ فیصلہ جانبدار نہیں تھا؟
کیا یہ سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے؟
کیا سابق وزیراعظم کیخلاف ثبوت اور گواہان کے بیانات انہیں سزا سنانے کیلئے کافی تھے؟
پہلی سماعت 2 جنوری 2012 اورآخری 12 نومبر 2012 کو ہوئی تھی جو 9 رکنی لارجربینچ نے کی تھی تاہم اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل بابر اعوان کا وکالت لائسنس منسوخ ہونے کی وجہ سے سپریم کورٹ نے وکیل کی تبدیلی کا حکم دیا تھا ۔ بعد ازاں اسی بنیاد پر یہ ریفرنس ملتوی کردیا گیا تھا۔
نومبر 2012 کے بعد سے اب تک پاکستان کے 8 چیف جسٹس صاحبان مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد ریٹائر ہو چکے ہیں تاہم تب سے اس ریفرنس کو سماعت کیلئے مقرر نہیں کیا گیاتھا۔
موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اکتوبر 2023 میں صحافیوں سے ملاقات میں ذوالفقارعلی بھٹو کی سزائے موت کے خلاف صدارتی ریفرنس کی جلد سماعت کا عندیہ دیا تھا۔