پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) نے ادویہ ساز سیکٹرز کو درپیش مسائل حل کرنے میں حکومت کی بے حسی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’اس (حکومتی) رویے سے ملک میں ضروری ادویات کی قلت پیدا ہوگئی ہے‘۔
پی پی ایم اے کے چیئرمین میاں خالد مصباح الرحمٰن نے انڈسٹری کی پریشانیوں کو اجاگر کرنے کے لیے کی گئی ایک پریس کانفرنس کے بعد پیر کو بزنس ریکارڈر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’مارکیٹ میں قانونی طور پر منظور شدہ ادویات کی اس قلت کی وجہ سے جعلی اور اسمگل شدہ ادویات مارکیٹ میں آ گئی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ ادویات یا تو غیر معیاری ہیں یا پھر ان کی سپلائی چین کا صحیح طریقے سے انتظام نہیں ہے، کیونکہ ان کی اسمگلنگ کی جا رہی ہے۔‘
قبل ازیں، پی پی ایم اے کے عہدیداروں نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے نگراں حکومت سے مطالبہ کیا کہ پاکستانی فارما انڈسٹری کی بقا کے لیے 262 ادویات کے ہارڈشپ کیسز کا فوری جائزہ لیا جائے۔
خیال رہے کہ پاکستان کے فارما سیکٹر میں کام کرنے والی کمپنیوں کو بھاری ضابطوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور انڈسٹری قیمتیں مقرر کرنے میں مکمل طور پر آزاد نہیں ہے۔
اس مسئلے کو اکثر اقتصادی فیصلہ سازی کے اعلیٰ ترین فورم ”اقتصادی رابطہ کمیٹی“ میں اٹھایا جاتا ہے، وفاقی حکومت کی منظوری سے مشروط ادویات کی زیادہ سے زیادہ خوردہ قیمتیں (ریٹیل پرائس) طے کرنے اور ان کا جائزہ لینے کے لیے ایک اور ادارے ”ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان“ (DRAP) کی 5 اگست 2013 کو تشکیل دی گئی ڈرگ پرائسنگ کمیٹی (DPC) کو بھی بااختیار بنایا گیا ہے۔
تاہم، فارما انڈسٹری سے جڑے بہت سے لوگ اور کمپنیاں اسے گھٹن زدہ کاروباری ماحول کے طور پر دیکھتی ہیں، خاص طور پر ایسے وقت میں جب کاروبار روپے کی قدر میں کمی اور توانائی کے اعلیٰ ٹیرف سے متاثر ہیں۔
مصباح الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ’امریکی ڈالر کی قیمت میں 50 فیصد اضافہ ہوا، مہنگائی میں 40 فیصد اضافہ ہوا، جب کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ان حالات میں، ہر صنعت قیمتوں میں اضافہ کر سکتی ہے، لیکن حکومت صرف ہمیں ہی نرخ برقرار رکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ اگر حکومت اسی طرح معاملات جاری رکھنا چاہتی ہے تو ہم کام نہیں کر سکتے۔ اگر حکومت عوام کو سستی ادویات فراہم کرنا چاہتی ہے تو اسے مہنگائی، ڈالر کی قیمت، بجلی اور گیس کی قیمتوں کو کم رکھنا چاہیے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ 100 سے زائد ضروری ادویات پہلے ہی مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں اور غیر دستیاب ادویات کی تعداد میں مزید اضافہ مریضوں کے لیے سنگین نقصان کا باعث بنےگا۔
پاکستان میں ادویات کی قلت کے مریضوں اثرات بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’خدانخواستہ اگر کسی کا آپریشن ہے یا کسی کی جان بچانے کیلئے فوری طور پر جس دوا کی ضرورت ہے وہ دستیاب نہیں ہے تو اس بات کا امکان ہے کہ اس کی جگہ دو نمبر دوا دستیاب ہوگی، اگر وہ دوا اسمگل شدہ ہوئی تو کس ٹمپریچر کس کوالٹی میں ہے اس کا کسی کو نہیں پتا‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر کوئی سنگل مالیکیول یا جُز والی دوا دستیاب نہیں تو ڈاکٹر کہے گا کہ دوسری دوا لے لیں جس میں اضافی مالیکیولز بھی ہوتے ہیں، وہ دوا اس مقصد کیلئے نہیں بنی لیکن آپ کو کھانی ہے، یہ دوا مہنگی بھی ہوتی ہے کیونکہ اس کی قیمتیں، اس کا خام مال نئی قیمتوں پر حاصل کیا گیا ہے، یہ دس پندرہ سال پرانی قیمتوں پر دستیاب نہیں ہوگی، اس طرح مریض پر فنانشل بوجھ بھی پڑے گا اور اس کی صحت کو بھی نقصان ہوگا‘۔
انہوں نے کہا کہ جب مقامی طور پر تیار کردہ ادویات مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہوتیں تو ایسے حالات میں مریض جعلی اور اسمگل شدہ ادویات پر انحصار کرتے ہیں۔
پریس بریفنگ میں پی پی ایم اے کے سابق چیئرمین زاہد سعید اور ڈاکٹر قیصر وحید سمیت ایسوسی ایشن کے دیگر عہدیداران بھی موجود تھے۔
ان عہدیداروں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ قانون کے مطابق 262 ادویات کی قیمتیں جن کی درخواستیں ڈیڑھ سال سے زیر التوا ہیں، ان کی قیمتوں میں معقول اضافے کی فوری اجازت دی جائے۔
فارما انڈسٹری کے ایک تجربہ کار رکن سعید نے کہا، ’ان مقدمات کا فیصلہ کرنے میں متعلقہ حکام کی طرف سے مزید تاخیر کا مطلب ہے کہ مقامی مارکیٹ میں مزید ضروری ادویات دستیاب نہیں ہوں گی۔‘
انہوں نے کہا کہ آخری بار جب حکومت نے قیمتوں میں اضافے کی اجازت دی تھی تو ڈالر کی قیمت میں اس وقت 200 روپے سے کم تھی۔
انہوں نے کہا کہ ڈالر کی شرح تبادلہ میں غیر معمولی اضافے کے علاوہ ریکارڈ مہنگائی کی وجہ سے ادویات کی پیداواری لاگت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 10 سال پہلے 40 ملٹی نیشنل کمپنیاں ہوا کرتی تھیں لیکن اب صرف 10 کے قریب رہ گئی ہیں، اور ان میں سے بھی اکثر کسی نہ کسی طرح اپنا آپریشن کم کر رہی ہیں۔
مصباح الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں دوا سازی کی صنعت میں بڑا کردار ادا کرتی ہیں کیونکہ وہ اپنے ساتھ تحقیق، ترقی، نئے علاج اور ادویات لے کر آتی ہیں۔
مصباح الرحمٰن نے کہا، ’صرف لاہور اور اس کے ملحقہ علاقوں میں 40 سے 50 ادویہ سازی کی مقامی کمپنیاں بند ہو چکی ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی سالانہ دواسازی کی برآمدات محض 300 ملین ڈالر ہیں اور اس میں 5 بلین ڈالر تک اضافے کی صلاحیت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ایسا ہونے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ ادویات کی صنعت کے لیے سازگار پالیسیاں نافذ کرے، تاکہ جدید ترین پیداواری ٹیکنالوجیز کو اپنایا جاسکے‘۔